کالم کا آغاز کرتے ہوئے ہمارا نقطۂ نظر عالمی منظر نامے پر مرکوز ہے، گزشتہ دنوں میں سب سے زیادہ اہم وقوعہ شام میں جنگجو گزشتہ دس برسوں سے متحارب باغیوں کا پچھلے 54 برسوں سے حکمران اسد ایرا کا تختہ الٹ دینے کا بنا ہے۔ پانچ عشروں سے حافظ الاسد اور ان کے بیٹے بشار الاسد کا آمرانہ اقتدار جس طرح ختم ہوا ہے اور دمشق سے بشار الاسد اور شامی فوج کی فراریت ہوئی، اس کی تفصیلات سے قارئین یقیناً واقف ہو چکے ہونگے۔ ہماری عرض یہ ہے کہ ایک جانب تو یہ عالمی نزاعی کیفیت امریکہ و روس کے درمیان سبقت کی تصویر ہے تو دوسری جانب شام میں نصف صدی کے آمرانہ و غیر جمہوری قبضہ کا شاخسانہ ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے شرق اوسط پر تسلط اور امریکی ایران تنازعے اور ایران کو کمزور کرنیکی کڑی بھی ہے جس کا سلسلہ اکتوبر 2023ء سے جاری ہے۔ مذکورہ بالا حقائق تو اپنی جگہ مسلم حقیقت ہیں لیکن دیکھا جائے تو باغیوں کا یہ اقدام حافظ الاسد کا 1982ء سے اپنے ہی عوام سے ظالمانہ سلوک، بیس ہزار شہریوں کا قتل اور بعد ازاں بشار الاسد کے عوام کو کچلنے، حقوق سے اغماز اور جمہوریت کی تکفیر کا اہم سبب ہوا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ شامی عوام اسد خاندان سے نجات کیلئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے، 2011ء میں عوام سڑکوں پر نکلے تو بشار الاسد نے بھی وہی کیا جو ان کے والد نے کیا تھا عوام کا قتل عام کیا گیا، مخالفت کے رہنمائوں کو قید کیا گیا، شہروں پر بمباری کی گئی، کیمیکل ہتھیار استعمال کیے گئے تاکہ اقتدار برقرار رہے اور روس اور ایران بشار الاسد کی حمایت کرتے رہے۔ عوامی جدوجہد جاری رہی اورنتیجہ موجودہ صورتحال میں سامنے آیا کہ بشار الاسد کو فرار ہونا پڑا، یہی نہیں فوج کو پسپا ہونا پڑا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ بنگلہ دیش میں عوام مخالف حرکات کے سبب حسینہ واجد بھی اسی حال کو پہنچی تھی، پاکستان کے موجودہ حالات بھی شام اور بنگلہ دیش سے کچھ کم نظر نہیں آتے، عوام کو جمہوریت، حقوق انسانی اور مینڈیٹ سے محروم کر کے ان کے قائدین کو قید و بند، مظالم اور جبر و سزائوں کی شکل میں انصاف و رول آف لاء کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ نظام اور عدالتوں کو آرڈینینسوں، آئینی ترامیم اور قوانین میں تبدیلی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ و غیر نمائندہ حکومت کے تابع کر دیا گیا ہے کہنے تو یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ 70 سے زائد برسوں سے یہ تماشہ جاری ہے، فرق یہ ہے کہ پاکستان میں یہ کھیل کسی فرد واحد آمر کے نہیں مقتدرہ کے سرخیل یا سربراہ کے طفیل جاری رہتا ہے۔ ہمارا یہ کہنا غلط نہ ہوگا پاکستان میں نظام و اقتدار سیاست کے نہیں طاقت کے تابع ہی رہتا ہے، سکندر مرزا سے لے کر موجودہ سربراہ اسٹیبلشمنٹ تک ان سیاسی جمہوروں کو اقتدار کی کٹھ پتلی بنایا جاتا ہے جو پیا من چاہے ہوتے ہیں اور اگر وہ ہوں ہاں کر دیں تو انہیں دودھ کی مکھی کی طرح نکال دیاجاتا ہے۔ بلکہ انہیں یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ اس ملک میں رٹ صرف ہماری ہے، عوامی مینڈیٹ اور مقبولیت آئین، جمہوریت کا کوئی گذر نہیں۔ رجیم چینج کی آڑ میں عوام کی منتخب حکومت کو ختم کرنے اور بعد ازاں 8 مارچ کو بھاری مینڈیٹ کے باوجود عمران خان و پی ٹی آئی کی جگہ 17 سیٹوں والی ن لیگ اور بھان متی کے کنبہ کی حکومت قائم کرنے کے حوالے سے نیز اس کے بعد سے ووقوع پذیر مظالم، قیود اور فسطائیت کے بارے میں ہم مسلسل قارئین کو نہ صرف آگاہی دیتے رہے ہیں بلکہ تواتر سے درخواست بھی کرتے رہے ہیں کہ ملکی وحدت و سالمیت اور عوامی فلاح کیلئے امن و آشتی کا راستہ اپنایا جائے لیکن اندھے کے آگے روئے اپنے بھی نین کھوئے کے مترادف نتیجہ وہی ہے کہ نا انصافی، جبرو بربریت اور میں نہ مانوں کے سواء کچھ بھی نہ ہو سکا۔
اس وقت حالات اس ڈگر پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں آئین، پارلیمان، سیاسی اشرافیہ، عدالتی و نظام انصاف کی توقیر ہر گز نظر نہیں آتی ہر کام ہر اقدام مقتدرین کی مرضی و منشاء کے مطابق کیا جا رہا ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں وجود میں آنے والی عدالت میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں کیسز کے حوالے سے سماعت میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ پر 25 ہزار کا جرمانہ عدالتی تاریخ کا انوکھا اور پہلا واقعہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے، قارئین یقیناً اس کی تفصیل میڈیا کے ذریعے جان چکے ہونگے، سیاسی سطح پر نہ صرف پی ٹی آئی کی سطح پر اندرونی اختلاف و شورش کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ عوامی سطح و حمایت میں شگاف ڈالا جا سکے بلکہ حکومتی جماعتوں میں تبدیلی کی خبروں سے خلجان پیدا کیا جا رہا ہے۔ ہماری التماس طاقت کے حامل ادارے سے یہی ہے کہ اختلاف کو اس سطح پر نہ لے جایا جائے جہاں وفاق پر سوالات اُٹھنے لگیں اور ملکی وحدت پر حرف آنے کی نوبت آجائے۔
مانو نہ مانو جان جہاں جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
٭٭٭٭٭٭