(حصہ دوم)
مولانا یوسف اصلاحی صاحب، سید مودودی کو یاد کرکے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ فرخ، میری کتابوں کی ساری بوٹیاں تو سید مودودی کی دین ہیں۔ میں تو ان کے بخشے ہوئے شوربے کو پتلا کر کر کے، کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں۔ مولانا اصلاحی صاحب لاہور گئے تو سید مودودی نے ایک ٹوپی انہیں تحفے میں دی۔ سیدی کا جب یہاں امریکہ میں انتقال ہوا تو مولانا اصلاحی صاحب نے وہی ٹوپی پہن کر ان کی نمازِ جنازہ، کینیڈی ائیر پورٹ (نیو یارک)پر پڑھائی۔سید ابوالاعلی مودودی صرف عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ ایک مردِ مجاہد بھی تھے۔ پاک و ہند کے فرسودہ اور نامنصفانہ نظام کو چیلنج کیا تو قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ ہمیشہ حق و صداقت کے مقف پر ڈٹے رہے۔ پھانسی جیسی ظالمانہ سزا کا بھی خندہ پیشانی اور ہمت و بہادری سے مقابلہ کیا۔ ایوب خان جیسے فوجی آمر کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کر کے، خواتین کے خلاف سیاسی عصبیت کو انتہائی مثر انداز سے چیلنج کیا۔ خلافت و ملوکیت جیسی کتاب تصنیف فرما کر شیعہ اثنا عشری جیسے بڑے فرقے کو اتحاد امت کے قریب تر لے آئے۔ دین و سیاست کو اتنی خوبصورتی سے ایک ہی پیرہن پہنایا کہ مذہبی سیاسی جماعت کی اصطلاح مقبول عام ہو گئی۔ انکی جماعت، جماعت اسلامی نے مالیات کا باقاعدہ حساب کتاب رائج کر کے دیگر مذہبی اکابرین کو بھی جدید بیت المال کے نظام سے روشناس کرایا اور عطیات دینے والوں کو باقاعدہ رسیدیں دے کر نظم کو عوام کے سامنے جوابدہ بنایا۔ایک زمانے تک، دنیا بھر میں، ہمارے ملک پاکستان کی پہچان سید مودودی کے نامِ نامی سے ہوتی رہی۔ دعوت کے کام کیلئے، اپنے وقت کے جدید ترین ذرائع کا استعمال کرنے کا سہرا بھی مولانا محترم کے سر رہا۔ انتہائی دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے طلبا و طالبات کی ایسی تنظیمیں قائم کیں، جو آج بھی کافی حد تک اپنا کام مثر انداز سے کر رہی ہیں اور اپنی پالیسیاں بنانے میں خاصی حد تک آزاد ہیں۔سید ابوالاعلی مودودی نے اشتراکیت اور سرمایہ داری، دونوں نظاموں کو قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں بیحد مثر انداز سے چیلنج کیا۔ اس حقیقت کو جان کر بڑی حیرانگی ہوتی ہے کہ اکیلے مولانا مودودی نے کئی درجن تھنک ٹینکس کا کام کر کے، رائج الوقت معاشی اور سیاسی نظاموں کے مقابلے میں اسلام کے الہامی تصورات کو اپنی کتابوں کے ذریعے، پوری دنیا تک کیسے پہنچایا ہوگا؟ جماعت کے تنظیمی کام کے ساتھ ساتھ، علمی موضوعات پر ابتدائی ریسرچ بھی خود کی، اعداد و شمار بھی خود اپنی نگرانی میں جمع کیے، کتابیں بھی تصنیف کیں اور مخالفانہ تجزیات کو رد کرنے میں بھی خوب محنت کی۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے ہاں صرف بے پناہ محنت ہی شاید واحد چیز تھی جو غیر متوازن لگتی تھی۔ ان کے نظریات میں البتہ ہمیشہ، حد درجہ کا توازن دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔ وہ بلاشبہ دلیل کی دنیا کے بادشاہ تھے۔ ان کی ابتدائی کتاب الجہاد فی السلام سے لے کر، آخری تحریروں تک، بالکل ایک جیسی پختگی اور گہرائی نظر آتی ہے۔ انکے مقف میں کہیں کچھ ذرا سی جھول بھی نہیں ملتی۔ انکی کسی تقریر کو قلم بند کریں تو کتاب بن جاتی تھی اور اگر انکی کسی تحریر کو خطبے کے لہجے میں پڑھ دیں تو ایک مثر تقریر لگتی تھی۔ اتنے مضبوط اور مربوط خیالات کی مالک شخصیت، مجھے تو دنیا میں کہیں کوئی اور نظر نہیں آتی۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے تیس دسمبر کوسیالکوٹ کی ایک تقریب میں فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے بچا کے لیے پریشان ہو گا۔ وہ ان دونوں نظاموں کو دو ایسی انتہائیں سمجھتے تھے جو کبھی بھی انسانیت کے مسائل حل نہیں کرسکے۔ انکی یہ پیشنگوئی بالکل درست ثابت ہوئی اور دونوں نظام آج تک ناکام و نامراد ہی رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں انہوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب سود میں اسلامی نظامِ معیشت کو ایک ایسے متوازن نظام کے طور پر پیش کیا جو عالمِ انسانیت کے مسائل کو حل کرسکتا ہے اور ریاستِ مدینہ میں پوری دنیا نے یہ دیکھ بھی لیا۔ہماری بدقسمتی کہ پاکستانی سیاست کی کم ظرفی کی وجہ سے، سید مودودی کا علمی کام بھی بہت بری طرح نظر انداز کر دیا گیا۔ خود جماعت اسلامی کی قیادت بھی روز مرہ کی سیاست کی الجھنوں میں ایسی گم ہوئی کہ سید مودودی کی چھوڑی ہوئی وراثت کو مزید نشو نما نہ دے سکی۔ مولانا محترم کے نظریات پر اگر مناسب اور منظم تحقیق کی جاتی تو اب تک ہزاروں تصنیفات شائع ہو چکی ہوتیں۔ اب بھی اگر مولانا محترم کے علمی کام پر تحقیق کی جائے تو عالمِ انسانیت کو خاطر خواہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔مولانا محترم کی وفات کے موقع پر، محترم نعیم صدیقی مرحوم کے یہ الفاظ کبھی پرانے نہ ہونگے۔
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا،نہیں وہ موجود تو بظاہرجگہ جگہ ہے سراغ اس کاوہی ہے ساقی، اسی کی محفل یا چراغ اس کاہزاروں دل ہیں کہ جن کے اندرجھلک رہا ہے دماغ اس کا
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
ذرا سے خاکی وجود میں وہرہا ہے برسوں تلک سمٹ کربدن کا بوسیدہ خول ٹوٹاغبارِ خاکی رہا ہے چھٹ کرشعاوں کے پر لگا کے اب وہحضورِ یزداں گیا پلٹ کر
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
نہ رو اس کو کہ جلوہ فرماوہ کہکشاں تا بہ کہکشاں ہیفرازِ جنت کے سبزہ زاروں میںرونقِ بزم قدسیاں ہیہوا مقرب وہ انبیا کاوہ آج، مخدوم نوریاں ہے ،وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا۔
٭٭٭