اہمارے ہاں بچی 16 سال کی ہو تی ہے تو والدین کہتے ہیں کہ ابھی بچی پڑھ رہی ہے ۔پہلے پڑھائی مکمل کرلے ۔ 17سال میں والدین کا موقف ہوتا ہے کہ ابھی بچی نے اور پڑھنا ہے ۔18 سال کی عمر میں میں پتہ چلتا ہے کہ اب بچی نے ڈگری کیلئے اپلائی کرنا ہے 20سال کی عمر میں خاندان والوں نے رشتہ مانگا ہے تو جواز بنتا ہے کہ لڑکا ،لڑکی سے کم پڑھا لکھا ہے اس لیے نہیں دے سکتے ۔ 21 سال میںرشتہ آیا توجواب ملا کہ ہم ذات سے باہر نہیں دے سکتے ،22 سال میں رشتہ آیا تو معلوم ہوا کہ لڑکا کم آمدنی والا ہے ہماری بچی کو کیسے خوش حال رکھ پائے گا ۔اس لیے نا۔ 23سال کی عمر میں رشتہ آیا تولڑکا ملازمت کرتا ہے ،سیلری کم ہے ،اس لیے ناں۔۔
24سال میں رشتہ آیا تو لڑکے کا رنگ سفید نہیں ہے ہماری بیٹی چٹی گوری ہے لہٰذا رشتہ میچ نہیں کرتا ،اس لیے ناں۔ 25سال کی عمرمیں ۔۔لڑکے کا اپنا مکان نہیں ہے کرائے پر ہے اس لیے ناں ۔26 سال کی عمر میں رشتہ آیا تو لڑکا لڑکی سے زیادہ بڑی عمر کا لگتا ہے اس لیے ناں ۔27سال میں رشتہ آیا تو لڑکے کی پہلے بھی ایک بیوی ہے اس لیے ناں۔28 سال میں رشتہ آیا تو جواب ملا کہ ہم رنڈوے کو نہیں دے سکتے۔ 30سال میں والدین کا موقف ہوتا ہے کہ پیر جی ہماری بچی کیلئے کچھ کریں، رشتے تو بہت آتے ہیں مگر میل جوڑ کا ایک بھی نہیں ۔ 32سال کی عمر میں بیٹی کے سر میں سفید چاندی دیکھ کر باپ کو بیماریاں لگ گئیں۔ 35 سال کی عمر میں لڑکی مایوس ہوگئی، 38 سال کی عمر میں ساٹھ سال کا رشتہ آیا ہے آدمی مالدار ہے چار بچے ہیں چاروں اپنے اپنے گھر شادی شدہ ہیں ۔بس بابے کو سنبھالنا ہے ۔40 سال کی عمرمیں لڑکی کا موقف ہوتا ہے کہاب میں نے شادی نہیں کرنی ۔مجھ سے اب کون کرے گا ؟ خدارا اپنی سوچ بدلیں ۔بیٹیوں کو بھاگنے ،خود کشی کرنے یا زندگی سے مایوس ہونے سے پہلے ہی حق زوجیت سے نوازیں ۔اور اپنے گھر پہنچانے کی فکر کریں ۔یہ ہر ماں باپ پر فرض ہے ۔وہ اولاد کے ولی ہیں ۔بچے، بچیوں کا حق ہے ماں باپ پر وہ ضرور ادا کریں ۔ایسا نہ ہو کہ کہیں دیر ہو جائے ، اپنی دعائوں میں یاد رکھیے گا ۔
٭٭٭