پاک افغان رابطے بحال!!!

0
23

پاکستان نے حالیہ دہشتگردی واقعات کے بعد افغانستان کی عبوری حکومت سے رابطہ کرلیا ہے۔ وطن عزیز میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ہونے والی تمام دہشت گردانہ کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کی رپورٹس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کی بحالی کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔پاکستان نے ہمسائیہ برادر ملک کے ساتھ بات چیت کو ہمیشہ اپنی ترجیح رکھا ہے تاہم اس بار معاملہ سرحدی اشتعال انگیزی یا تجارتی رکاوٹ کا نہیں بلکہ پاکستان میں سرگرم امن دشمن قوتوں کے کلاف کارروائی کے مطالبے کا تھا جس کو پورا کرنے میں عبوری افغان حکومت ناکام نظر آئی۔ پاک افغان تعلقات کو 1947 میں پاکستان کے قیام سے ہی باہمی تنازعات اور چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ تاریخی طور پر، افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی، جو دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں، افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جو 1893 میں برطانوی ہندوستان کے سر مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغان حکمران عبدالرحمن خان کے مابین معاہدے کے تحت طے کی گئی تھی۔ کئی افغان حلقے اس سرحد کے حوالے سے تنازعات پیدا کرتے رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان پشتون قوم پرستی، سوویت یونین کے خلاف مزاحمت ، نائن الیون ، دہشت گردی کے خلاف جنگ،دو طرفہ تجارت اور افغانستان میں بھارتی ایجنسیوں کا پاکستان کے خلاف متحرک کردار پاک افغان تعلقات کی صورت گری کرتا رہا ہے۔دونوں ممالک میںاب بات چیت بحال ہوئی ہے تو فریقین نے دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے اعلی سطح کے روابط بڑھانے پر اتفاق کیا ہے جبکہ پاک افغان طور خم بارڈر 28 روز بعد پیدل آمدورفت کیلئے کھول دیا گیا۔ ویزا اور پاسپورٹ رکھنے والے مسافروں کو افغانستان آنے اور جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔واضح رہے کہ تین ہفتوں سے زائد عرصہ قبل طورخم سرحد کے متصل افغان فورسز کی طرف سے تعمیرات پر سرحدی کشیدگی پیدا ہوگئی تھی جسکے باعث طورخم سرحدی گزرگاہ ہرقسم کی آمدورفت کے لیے بند کردی گئی تھی۔کسٹم حکام کے مطابق پاک افغان طورخم تجارتی گزرگاہ بند ہونے سے یومیہ 30 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔طورخم بارڈر کی بندش کے باعث پاکستان اور افغانستان کے درمیان سالانہ تجارتی حجم اڑھائی ارب ڈالر سے کم ہو کر ڈیڑھ ارب ڈالر تک آگیا ہے۔یہ ایک بڑا نقصان ہے ، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کو دنیا کی بے حسی کے باعث کئی معاملات میں ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ پیشرفت پاکستانی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان صادق خان کی کابل میں قائم مقام افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی سے ملاقات کے دوران سامنے آئی ہے، جس میںباہمی تعلقات اور افغان مہاجرین کی بتدریج اور باوقار واپسی پر گفتگو ہوئی۔ صادق خان نے کہا کہ افغانستان کی سکیورٹی پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے جبکہملا امیر متقی نے کہا کہ تجارت اور ٹرانزٹ میں رکاوٹ کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے اپنے دورہ کے دوران کابل اور اسلام آباد کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے بات چیت کی۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی اور راہداری مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات پر بھی گفتگو کی گئی۔یہ گفتگو ابتدا کی حد تک خوش کن ہے تاہم ملاقات کے دوران جو فیصلے کئے گئے ہیں ان پر عملدرآمد ہی اچھے تعلقات کی امید زندہ رکھ سکتا ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی ، خاص طور پر افغان سر زمین سے ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے پر کئی تجاویز زیر بحث رہی ہیں۔ مشیر اطلاعات کے پی کا کہنا ہے کہ 2021میں جب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوا تو طے پایا تھا کہ افغان طالبان پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مسائل پر بات کریں گے، اپریل 2022 میں پی ڈی ایم کی حکومت آئی تب بھی یہ معاملہ چلتا رہا، بعد میں افغانستان سے تعلقات خراب ہونے پر یہ سلسلہ رک گیا۔ خراب تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ نہ دی جا سکی، اب تک جنگ چل رہی ہے ورنہ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کی جنگ ختم کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ وفاقی حکومت نے جو مشاورتی اجلاس طلب کئے صوبائی حکومت نے ان میں اب تک کوئی خاطر خوا تجاویز پیش نہیں کیں۔کے پی کے فرنٹ علاقہ ہے ،دہشت گردی سب سے زیادہ اسے متاثر کر رہی ہے، مشاورت کے عمل میں اس کا شریک رہنا قیام امن کی کوششوں کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ قومی سانحات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں 1971 کی شورش میں پاکستان کے نقصان کے پیچھے دو اہم عوامل تھے: سیاسی مینڈیٹ سے انکار اور طاقت کا بے تحاشہ استعمال۔ لیکن ان اسباق کے باوجود حکمت عملی تبدیل نہیں کی گئی۔ تنازعہ کے فیصلہ کن مرحلے کے بعد،کے پی کے اور بلوچستان میں سرگرم گروپوں نے افغانستان میں اڈے قائم کیے اور سرحد کے پار نچلی سطح کی شورش کو جاری رکھا۔ لیکن، ان کی سرحد پار موجودگی نے ان کے لیے فیصلہ کن کامیابی کا باعث بننے کے بجائے تنازعہ کو طول دیا۔دہشت گرد گروپ افغان سرزمین پر ٹھکانے بنا کر پاکستان کو طویل المدتی جنگ میں الجھانا چاہتے ہیں۔پاکستان کو ہمسائیہ ممالک ، بین الاقوامی و علاقائی طاقتوں اور دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے عالمی اداروں کو ساتھ ملا کر ایک وسیع تر اتحاد قائم کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کے سرحد پار تعاقب میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here