نوبل پیس پرائز برائے فروخت ہے! !!

0
71
کامل احمر

ہم آج یہ بات پورے یقین سے لکھ رہے ہیں کہ سویڈن کے الغرڈ نوبل کا ہر سال ناروے سے دینے والا تمغہ نوبل امن کا کبھی کبھی ضرورت کے تحت پانچ بنیادی ممبران کی کم عقلی یا سیاست کی کارروائی کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ بقیہ پانچ کٹیگری، لٹریچر، کسمٹسری، فزکس، فزیالوجی اور میڈیسن کے علاوہ جب ملالہ یوسف زئی کو دیا گیا اور ایک بار امریکہ کے صدر اوبامہ کو ملا تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی کہ ایسا کیا کیا گیا ہے کہ یہ حقدار تھے۔اور یہ دونوں دنیا میں امن لائے یا امن لانے کی کوشش کی۔ ملالہ اور اسکے باپ کو نیویارک ٹائمز نے پورے صفحے پرCIAکے لوگوں کے ساتھ بیٹھے دکھایا تھا۔ نوبل پرائز دینے سے پہلے، اور اوبامہ صدر مصر کی یونیورسٹی میں امن کے موضوع پر لیکچر دے کر آئے تھے۔ امن نہیں لائے تھے اُن کا کہنا تھا کہ ہر ملک کو اپنے طور پر حکومت کرنے کا اختیار ہے اور کسی کو دوسرے ملک میں دخل اندازی کرنے کا اختیار نہیں سن کر ہم بہت خوش ہوئے کہ یہ امریکی صدر تاریخ کو بدل دے گا۔ لیکن اس کے فوراً بعد جنگ جاری رہی امریکہ کی دخل اندازی روز اول سے جاری رہی۔ جہاں مطلب ہو آمروں کا ساتھ دیا اور آمر پسند نہیں آیا تو جمہوریت پر زور دیا جو کئی ملکوں میں جاری ہے پاکستان میں دخل اندازی نہیں بلکہ وہاں کی سیاست میں اجارہ داری ہے کہ25کروڑ کے ملک میں ایک شخص عمران خان جو ملکی حالات جن میں کرپشن اور آرمی کی آمرانہ قوتوں کے مقابلے میں کھڑا ہوا ہے اس کی حکومت کا صرف ساڑھے تین سال بعد تختہ الٹ دیا۔ اس وقت کے جنرل باجوہ کو نواز کر اور عوام پر بھگوڑے اور ملک کو لوٹ کر بھاگ جانے والے مشہور زمانہ کرپٹ سیاست دانوں کو الیکشن کی دھاندلی سے حکومت کرنے کے لئے لایا گیا اور اس پر ایک اور ریٹائرڈ جنرل کو بٹھایا گیا یہ سب کچھ ہوا لیکن امریکہ کہتا رہا ہمارا اس دخل اندازی میں ہاتھ نہیں۔
اور آج امریکہ کے صدر ٹرمپ نے ان ہی بدعنوانوں کو وہائٹ ہائوس میں بلاکر اعزاز بخشا کہ وہ حالیہ اسرائیل اور حماس معاہدے کے گواہ بھی ہیں اور صدر ٹرمپ کی تقریر کے دوران پیچھے کھڑے تالیاں بجا رہے ہیں۔ ان کو اپنے قریب رکھنے کا مطلب ہے جب بھی تو اور عمران کو جیل میں بند کرکے اپنا مطلب پورا کر رہے ہیں۔ اس کرپٹ حکومت اور امر عاصم منیر نے امریکہ کو یہ نذرانہ پیش کیا ہے اور ملک کو اپنے قبضے میں لے کر وہاں کے عوام کے انسانی حقوق کی پائمالی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف غزہ میں سینکڑوں، صحافی اور ڈاکٹروں کو موت کی نیند سلانے والے نتن یاہو کی سنی جارہی ہے۔ نوبل کمیٹی یہ سب کچھ جانتی ہے کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے مگر وہ فیصلے کس کے مشورے سے کرتی ہے نوبل پرائز دینے کے لئے یہ راز ہے اور پچھلے ہفتہ وینزویلا کی اپوزیشن لیڈر جو وہاں کے صدر موورو کی مخالف ہے کو امن کا پرائز دے کر سمجھتی ہے کہ انہوں نے کارنامہ انجام دیا ہے۔
اسی کے ساتھ صدر ٹرمپ بھی کوشش میں تھے کہ یہ نوبل پرائز انکا حق تھا بقول اُن کے انہوں نے اب تک جنوری کے بعد نو جنگیں ختم کروائی ہیں جس کا عوام اور دنیا کوعلم نہیں کیا خوب اس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا ہے اور لکھا بھی گیا ہے کہ وینزویلا کی پونے تین کروڑ عوام کے ملک کی مخالف جماعت کی رہنما ماریا کو ربنامشادو کو صرف اس بات پرامن کا نوبل پرائز دیا کہ وہ صدر صدورو کے خلاف جمہوریت کی آواز لگا رہی ہے اور نظر بندی میں جب کہ صدر مورو بھی انتخاب کے بعد صدر بنے ہیں لیکن امریکہ ونیزویلا کی حکومت میں کافی عرصے سے مخالف رہا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کئے ہوئے ہے ایسا ہر ملک میں ہے جہاں فلم ہو رہا بالخصوص پاکستان میں یہ کھیل عرصہ سے جاری ہے لیکن نوبل کمیٹی کو اس کا علم نہیں شاید وہ پڑھتے نہیں اور دیکھتے بھی نہیں انہیں یا تو یورپ بتاتا ہے یا امریکہ، ہر سال اسکی تیاری اور نامزدگی جنوری میں ہو جاتی ہے اور اکتوبر کے ماہ سے اعلان ہوتا ہے اور دسمبر میں تقریب کے دوران، انعام حاصل کرنے والوں کو نوازہ جاتا ہے۔
اگر ہم امن کی بات کریں تو عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ امن کے ساتھ احتجاج جاری رکھینگے اور جیل جانا پسند کرینگے کیا یہ بات کمیٹی کو نہیں معلوم ہے لیکن وہ چشم پوشی کر رہی ہے۔ اور آپ دنیا بھر میں مشہور ہوگیا ہے۔ کہ یہ نوبل پرائز ایک ڈھکو سلا ہے سب کو معلوم ہے کہ ایک نامعلوم جمہوریت کا نعرہ لگا نے والی کیا کیا اہمیت ہے سوائے اس کے کہ امریکہ ساتھ دے رہا ہے نہیں معلوم کہ پاکستان میں اس شخصیت کو کیسے نظر انداز کیا ہے جس نے ملک اور عوام کے لئے سب کچھ قربان کرکے یہ مقام حاصل کیا ہے کہ اگر آج عمران خان کو جیل سے نکال دیا جائے اور الیکشن ہوں تو پاکستان میں جمہوریت(اصلی) کا بول بالا ہو۔ لیکن افسوس! امریکہ ہمیشہ اپنا مفاد دیکھتا ہے عمران خان کو جیل میں بند کرکے پاکستان میں کرپٹ حکومت اور امریکہ کو ایک ایماندار لیڈر سے نجات ملی ہے جو ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملا سکتا۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے سب گڑ بڑ گھٹالہ ہے اور عارضی ہے اور تاریخ کو مسخ کرنے کے مانند ہے کہ اگر پوچھا جائے کہ کیا آپ جمہوریت چاہتے ہیں یا آمرانہ حکومت جواب ہوگا۔ جو ہماری بات مانے اور نوبل کمیٹی اس کا خیال رکھتی ہے مزے کی بات یہ کہ نوبل پرائز ملنے کے تیسرے دن ہی ماریا کورینا مشادو اور صدر ٹرمپ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے ماریہ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ یہ نوبل پرائز صدر ٹرمپ کے لئے ہے اور میں اُن کی مرہون منت ہو۔ کیا اس سے زیادہ ثبوت چاہیئے۔ مبارکباد ماریا کو جمہوریت کی آواز اٹھانے پر لانے پر نہیں اس پر دنیا بھر کے لوگ کمنٹ کر رہے ہیں سوشل میڈیا پر ماریا بھی دوسرے سیاست دانوں کی طرح حکومت کرنا چاہتی ہے وہاں کے صدر مدورو کو ہٹا کر اگر امریکہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائے۔ اس کیا کہیں گے کہ بین الاقوامی کرمنل کورٹ صدر مدورو کے الیکشن میں دھاندلی سے ضدر ہونے پر مگر وہ25کروڑ کے ملک پاکستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے والوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ لعنت اس کورٹ پر یوروپ بھی مدارو کے خلاف ہے جو روس اور چائنا سے مل کر ملک چلا رہا ہے۔ ماریا کورینا ایک متنازع شخصیت رہی ہیں عوام جانتے ہیں کہ غزہ میں ظلم کے خلاف اس نے آواز نہیں اٹھائی ہے۔!
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here