سیاست میں گند!!!

0
203
جاوید رانا

اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے پاکستان میں سیلاب کی قیامت خیزی، بھارت کی آبی جنگ سے پاکستان کو متاثر کر کے اپنی عالمی ہزیمت کو دھندلانے کے حوالے سے ریاستی و سیاسی اور حکومت کو باور کروانے کی کوشش کی تھی لیکن مردہ جسموں میں زندگی کی لہر دوڑانے کی یہ کوشش لگتا ہے بے سود ہی رہی ہے۔ بھارت اپنی سازش سے باز نہیں آیا ہے اور نتیجتاً ستلج اور چناب میں طغیانی سے گنڈا سنگھ والا، ہیڈ پنجند کی تباہی کیساتھ ملتان کو کئی لاکھ کیوسک پانی سے متاثر و تاراج کرتا ہوا ہماری ان سطور کی تحریر کئے جانے تک گڈو اور سکھر بیراج تک پہنچ رہا ہے۔ مرے پہ سودُرّے کراچی سمیت سندھ میں شدید بارشوں کی پیشگوئی صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافے کی نشاندہی ہے۔ دکھ اس بات پر ہے کہ این ڈی ایم اے اور صوبائی محکموں کی وارننگ کے باوجود وفاق اور صوبوں کی حکومتوں سمیت سیاسی اشرافیہ زبانی جمع خرچ اور مفاداتی جھگڑوں میں ہی اُلجھی ہوئی ہیں، ہم نے اپنے پچھلے کالم میں واضح کیا تھا کہ 2005ء کے زلزلے اور گلوبل وارمنگ کی وارننگ کے باوجود زبانی کلامی منصوبہ بندیاں تو کی گئیں کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا، آج بھی صورتحال یہی ہے کیونکہ کوئی بھی حکومت میں ہو یا مخالفت میں ہو ترجیح اپنی سبقت و مفاد پر ہوتی ہے نہ کہ قومی و عوامی مفادات کیلئے۔ اس دوغلے پن کے نتائج محاذ آرائی، الزام تراشی حتیٰ کہ ذاتی و گروہی دشمنی کی صورت میں سامنے آتے ہیں اور قومی مفاد پس پُشت ڈال دیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کے حصول اور تنزل کی تو ایک طویل تاریخ ہے اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا (جو بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے) کا کردار نفرت و غلاظت کی صورت میں معاشرے کے بگاڑ کا موجب بنا ہوا ہے۔ اس کے اثرات آئے دن سامنے آتے ہیں کبھی چینلز پر سیاسی رقیبوں کی ہاتھا پائی کی صورت میں تو کبھی یوٹیوبرز اور ولاگرز کے جھوٹے، غلیظ اور بے بنیاد پروپیگنڈے کی شکل میں اور یہ سب یا تو سیاسی وابستگی کیلئے ہوتا ہے یا پھر عوامی مزاج کے تناظر میں اپنے پیسے بنانے کیلئے، بات یہاں تک ہی محدود نہیں، اب تو ایک ہی جماعت یا پارٹی کے حامی یوٹیوبرز اور بلاگرز میں اختلافی گروپس بن گئے ہیں(خصوصاً پی ٹی آئی کے) اور مخالفین کیخلاف ہتک آمیز بلکہ ذاتی و فحش بیانیے سے بھی نہیں چُوکتے، خان کی مخلص اور جانثار صنم جاوید کیلئے فحش الزام تراشی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ سیاست و صحافت میں گندگی اور غلاظت محض متذکرہ بالا واقعات تک ہی محدود نہیں، تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر دور میں ہی ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں اور کوئی سیاسی جماعت بلکہ بعض میڈیا ادارے اور ارکان ان سے ماورا نہیں، بی بی شہید کیخلاف نواز لیگ کی نفرت انگیز مہم ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس قسم کی حرکات، الزام تراشیاں اور دشمنیاں سیاسی حوالوں کے تسلسل سے ہوتی رہی ہیں، اب گلوبل ورلڈ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے سیاسی گند نہ صرف بہت بڑھ چکا ہے بلکہ سیاست میں دشمنی و نفرت کا کھلا باب بن چکا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو علیمہ خان پر انڈوں سے حملہ، ملوث خواتین کا پولیس تحویل لئے جانے کے بعد غائب ہو جانا، وزیر مملکت کا انڈہ پھینکنے پر اظہار مذمت اور جوتا، سیاہی پھینکنے کے اس سلسلے کو پی ٹی آئی کا شاخسانہ قرار دینا، بشریٰ بی بی کی بہن مریم وٹو کا اس واقعے کو ڈرامہ قرار دینا اور وزیر داخلہ کا مریم وٹو کے بیان کی تائید کرنا سیاسی گندگی اور نفرت کی مثال نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ سوموا ر کو بول کے نمائندے طیب بلوچ کیساتھ جو کچھ ہوا یقیناً قابل مذمت ہے اور ہم بھی اس کی شدید مذمت ہی کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کا مار دھاڑ کا یہ وطیرہ کسی بھی طرح قابل تسلیم نہیں خصوصاً خان کے وکیل نعیم پنجوتا کا گالی دینا تو تہذیب کے منافی ہے۔ یہ مؤقف لیا جا سکتا ہے کہ خان پر مسلسل ظلم و استبداد اور پی ٹی آئی کیخلاف مقتدرہ اور فارم 47 کی حکومت کے منفی وغیر جمہوری و غیر انسانی رویوں اور قید و بند کے سبب پی ٹی آئی میں غصے اور رد عمل کا عنصر بڑھ چکا ہے اور وہ مخالف سیاسی قوتوں، میڈیا بلکہ خود اپنی صفوں میں بھی گروپنگ اور محاذ آرائی پر اُتر آئے ہیں۔ سیاست تحمل، تعلق اور مکالمہ سے عبارت ہے لیکن موجودہ سیاسی ہی نہیں میڈیا، عوام غرض پورا معاشرہ ہی جھنجلاہٹ، بے یقینی اور انتشار میں گھرا ہوا ہے، اس کا وحد علاج ایک ہی ہے کہ ہماری سیاست میں مفاداتی گندگی کی جگہ قومی شعور و سدھار آجائے ورنہ سیاست بلکہ پورا معاشرہ ہی گندگی سے عبارت رہے گا۔
٭٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here