نیب ترامیم مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ملاحظات سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمران طبقات اپنی بد عنوانی کو تحفظ دینے کے لئے قانون سازی کی آڑ میں کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ محترم چیف جسٹس نے ملاحظات میں کہا کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جارہی ہیں۔بد نیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ داغدار پیسے کا تحفظ کرکے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ انصاف اور عدل کی بنیاد پر معاشرہ قائم کرے۔اگرچہ ساتھی جج جناب جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم میں غلطیاں تلاش کرنے کو درست نہیں سمجھا لیکن سماج میں امیر اور غریب کے لئے انصاف کے پیمانے الگ الگ ہونے سے صورتحال وہی ہے جس کی نشاندہی چیف جسٹس فرما رہے ہیں۔ قومی احتساب بیورو کا مقصد ایک قابل اعتماد، موثر اور متحرک انسداد بدعنوانی کا نظام ترتیب دینا ہے جو ایک مکمل، جامع اور جدید پروگرام کے ذریعے بدعنوانی کے خلاف جنگ میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو بدعنوانی سے پاک معاشرے کے لیے ایک سازگار ماحول فراہمکرتا ہے۔نیب ملک میں بدعنوانی اور مالیاتی جرائم کے مقدمات چلانے کا ذمہ دار ہے۔احتساب بیورو کے پاس پراسیکیوٹرز کی ایک ٹیم ہے جو عدالت میں مقدمات پیش کرنے اور بد عنوانوں کو سزائیں دلانے کا ذمہ دار ہے۔ نیب تمام معاملات میں مناسب حکمت عملی کی پیروی کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام فریقین کو منصفانہ ٹرائل کا موقع دیا جائے۔ یہ تاثر بوجوہ مستحکم ہوتا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے اپنے رہنماوں کے خلاف مقدمات کا توڑ کرنے کے لئے یہ قانون منظور کیا گیا۔یہ بل 15 مئی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا ۔ بل کی منظوری کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ نیب کے ترمیمی بل 2023 کے تحت چیئرمین نیب کو مزید اختیارات دیے گئے ہیں۔ترمیمی بل میں حسب ذیل ترامیم متعارف کرائی گئیں : ٭ذیلی دفعہ 3 کے تحت منتقل کی جانے والی تمام زیر التوا انکوائریوں پر چیئرمین نیب غور کریں گے۔٭چیئرمین کو کسی دوسرے قانون کے تحت شروع کی گئی انکوائریوں کو بند کرنے کا اختیار ہوگا۔٭چیئرمین نیب ایسی تمام انکوائریوں کو متعلقہ ایجنسی، ادارے یا اتھارٹی کو بھیجنے کا مجاز ہوگا۔٭انکوائری تسلی بخش نہ ہونے کی صورت میں چیئرمین نیب ملزم کی رہائی کی منظوری کے لیے کیس متعلقہ عدالت کو بھیجنے کے مجاز ہوں گے۔٭چیئرمین نیب کی جانب سے انکوائری موصول ہونے پر متعلقہ ایجنسی یا محکمہ شق اے بی اور بی کے تحت مزید انکوائری کرنے کا مجاز ہوگا۔٭عدالت کے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں نیب کی مدد سے کوئی بھی کیس متعلقہ ادارے، ایجنسی یا اتھارٹی کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔٭نیب عدالت سے کیس کی واپسی پر متعلقہ محکمہ یا اتھارٹی اپنے قوانین کے تحت مقدمہ چلا سکے گی۔٭نیب ترمیمی ایکٹ 2022 اور 2023 سے پہلے طے شدہ مقدمات نافذ رہیں گے۔٭یہ فیصلے واپس لینے تک نافذ العمل رہیں گے۔٭کوئی بھی عدالتی فورم یا ایجنسی اپنے متعلقہ قوانین کے تحت پرانے یا نئے گواہوں کو ریکارڈ کرنے یا دوبارہ ریکارڈ کرنے کی مجاز ہو گی تاکہ اس کا حوالہ دئیے گئے کیس میں مزید کارروائی کی جا سکے۔٭نیب ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت تمام زیر التوا انکوائریوں، تحقیقات اور ٹرائلز پر مزید کارروائی صرف متعلقہ اداروں کے قوانین کے تحت کی جائے گی۔٭کسی بھی وجہ سے ڈپٹی چیئرمین کی عدم دستیابی کی صورت میں وفاقی حکومت نیب کے سینئر افسران میں سے کسی ایک کو قائم مقام چیئرمین تعینات کرنے کی مجاز ہوگی۔اس ترمیم سے حکومت نے نیب پر اپنا کنٹرول قائم کیا۔ دوران سماعت نیب ترامیم سے مستفید افراد کی رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا گیاکہ رواں سال 30اگست تک 12ریفرنسز نیب عدالتوں سے منتقل ہوئے ہیں۔سابق صدر آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے ترامیم کے بعد واپس کر دیا۔ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر کے علاوہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا اور انور مجید کے نیب مقدمات بھی منتقل کئے گئے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ جعلی اکاونٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی اور اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کا کیس بھی نیب دائرہ کار سے باہر ہو گیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال مجموعی طور پر 22مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس،25مقدمات دیگر فورمز کو منتقل کئے گئے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے ایڈیٹڈ رپورٹ جمع کرائی ہے؟، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی نیب نے رپورٹ دے دی ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ عدالتوں میں زیر سماعت وہ مقدمات ہیں جن میں چند ہزار کی چوری پر لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔مہنگائی کی حالیہ لہر کو عوام حکمران طبقات کی امتیازی پالیسیوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔نیب کو اگر اسی طریقے سے چلایا جاتا رہا تو یہ بالائی طبقات کے ہاتھ میں ایک استحصالی ہتھیار بن کر رہ جائے گا۔
٭٭٭