قارئین کرام! سال 2023ء کا آغاز ہو گیا ہے، روایت کے مطابق فرد سے معاشروں، ممالک اقوام کے درمیان نئے سال کے حوالے سے مبارکباد اور خیر سگالی کے جذبات کے تبادلے ہو رہے ہیں سال نو کیلئے غالب کی زبان میں برہمن کے حوالے سے یہ سال اچھا ہونے کی نوید دی جا رہی ہے۔ ہم بھی اپنے قارئین اور تمام افراد دنیا کیلئے حسب معمول نیک خواہشات، کامیابی و خوشحالی کی دعا کرتے ہیں کہ رسم دنیا موقع کی مناسبت سے نبھانی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سال نو کی مبارکباد محض زبانی کلامی ہی ہے، نظر ڈالیں تو دنیا بھر میں رونما ہونیوالے حالات و واقعات جس ڈگر پر جا رہے ہیں اس تناظر میں سال کے اچھا ہونے کے آثار محض خیال خام ہی ہے۔ حرص و ہوس، خود غرضی و برتری کا بھوت افراد و اقوام، مقتدرین و طالع آزمائوں کے سر چڑھ کر گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی ناچتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود نئے سال کی آمد کو امیدوں، اُمنگوں کا باعث رسماً قرار دیا جا رہا ہے کہ یہی رسم دنیا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر حالات و واقعات کا تسلسل گزشتہ مہینوں، برسوں سے جُڑے واقعات ہی نظر آتے ہیں گویا کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
عالمی منظر نامے میں حالات و اقعات کے حوالے سے تفصیل میں جائے بغیر روس و یوکرائن کے درمیان محاذ آرائی وہ بڑا سبب ہے جس کے اثرات خصوصاً معاشی حوالوں سے ساری دنیا پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کے حوالے سے اس بات کے اظہار پر ہمیں کوئی عار نہیں کہ گزشتہ برس ہونے والے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں رونما ہونے والے پیش آمدہ حالات مزید دگرگوں نظر آتے ہیں۔ سیاسی و معاشی بگڑتی ہوئی صورتحال بدترین ہوتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ برس عدم اعتماد کے ڈرامے کے بعد جاری سیاسی کشیدگی، عوام کی نمائندگی و حمایت سے محروم امپورٹڈ حکومت کی نا اہلی و ناکامی کے باعث معاشی ابتری و آئی ایم ایف و دیگر عالمی اداروں کی سرد مہری سے ڈیفالٹ کے خدشات کیساتھ دہشتگردی کے بڑھتے عفریت کے پیش نظر کچھ اچھا ہونے کا کوئی امکان نہ ہونے کے برابر ہی نظر آتا ہے اور مایوسی کے اندھیرے غار کے دوسرے کونے پر ملک و عوام کیلئے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔
امپورٹڈ حکومت کے دعووں اور اعلانات کے باوجود جہاں عوام مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے ہیں اور دو وقت کی روٹی کیلئے بھی مشکل میں ہیں وہیں سیاسی اُفق پر بھی عوام کی نمائندہ جماعت اور مقبول ترین لیڈر کو دیوار سے لگانے کی ہر وہ سازش کی جا رہی ہے جس سے عمران خان اور اس کی جماعت کو عوامی نمائندگی اور سیاست سے بے دخل کیا جا سکے۔ کئی گروپ بندیاں کی جا رہی ہیں، ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرنے، باپ کے اراکین اسمبلی و رہنمائوں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے دھندوں کا مقصد سندھ بالخصوص کراچی و دیگر شہری علاقوں اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی مقبولیت متاثرکرنے کے سواء کچھ نہیں۔ یہ سب کچھ کیوں اور کس کے ایماء پر ہو رہا ہے، اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ سندھ میں کامران ٹیسوری کی گورنر کی حیثیت سے نامزدگی اور سابقہ ایم کیو ایم کے دھڑوں بشمول فاروق ستار و مصطفی کمال کا اتحاد فیصلہ سازوں کے سواء کسی سیاسی یا عدالتی طاقت کے بس کی بات نہیں ہو سکتی ہے۔ ہمارے اس تجزیے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سال رواں میں سیاسی منظر نامہ کس طرح ترتیب دیا جانا ہے۔ توشہ خانہ، آڈیو ویڈیو، پنجاب اسمبلی اور سیاسی جوڑ توڑ سے عوام کی حمایت کے برعکس عمران اور پی ٹی آئی کو سیاسی ایرینا سے آئوٹ کرنا ہی اس کا مقصد ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واضح اعلان و اظہار اور موجودہ سربراہ اسٹیبلشمنٹ کی غیر سیاسی، شہرت کے باوجود یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب دہشتگردی کی مہیب ترین لہر آئے دن ہماری حفاظت و ملک کی سلامتی کے ذمے دار بیٹوں اور شہریوں کی جانیں لے رہی ہے۔ دہشتگردی کو ختم کرنے اور وطن کی سلامتی کے حوالے سے گزشتہ دنوں میں قومی سلامتی کے کئی اجلاس ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک کی سلامتی و تحفظ کیلئے ٹی ٹی پی و بی ایل اے سمیت دشمنوں کو بھرپور جواب دیا جائیگا۔ اور پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا یقیناً یہ اعلان اور فیصلہ ملک کی سالمیت کیلئے بہترین ہے لیکن اس کیلئے سیاسی و معاشی استحکام اور قومی یکجہتی لازمی امر ہے۔ موجودہ حالات اس مر کے متقاضی ہیں کہ ماضی کے طرح اسوقت بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لاکر ایسے اقدامات کئے جائیں۔ ساری قوم کی یکجہتی کو یقینی بنا سکیں۔ موجودہ حالات خصوصاً سیاسی اقدامات قومی یکجہتی و اتفاق سے مبرا اور عوام کے اُمنگوں کے برعکس ہی نظر آتے ہیں جو کسی طرح ملک و قوم کی خواہشات کے خلاف ہیں۔
ہمار تجربہ ومشاہدہ تو یہ ہے کہ سیاسی موشگافیوں، جوڑ توڑ اور عوامی خواہشات کے برعکس اقدامات ملک وقوم کی شکست و ریخت کا باعث بھی ہوسکتے ہیں۔ اتحادو اتفاق کے لئے وطن کے محافظوں کے ساتھ قوم کے سچے رہنمائوں کا کردار بہت ضروری ہے۔ اور اس کے لئے جمہوری طریقے سے عوام کے نمائندوں کو ان کا حق دینا لازم ہے۔ گروپ بازی سے حکومتوں کا قیام عارضی مقاصد تو پورے کرسکتا ہے دائمی سلامتی وخوشحالی کا باعث نہیں ہوسکتا۔ ملک کمزور ہو، ریشہ دوانیوں کی آماجگاہ بن جائے تو داخلی و بیرونی دشمن قوتوں کا ترنوالہ بن جاتی ہیں۔ ملک وقوم کے دشمنوں کا منہ توڑ جواب اتحاد میں ہے۔
٭٭٭