محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آپ کو بیشتر اوقات ستاروں و سیاروں کی چالوں اور مختلف طور طریقوں سے حاجت روائی کے طریقے و دعا پر زور دیتا ہوں ،آج مجھے ایک سچی آپ بیتی نے متاثر کیا، سوچا قارئین کی نذر یہ سبق آموز کہانی کروں جو آجکل وائرل ہے، اس کو پڑھیں ایک ایک لفظ آپ کو متاثر کریگا ،اب آپ ملاحظہ فرمائیں!
شکور ابو غزالہ فلسطین میں پیدا ہوا ،وہاں پلا بڑھا ، تعلیم حاصل کی لیکن پھر حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ1948 میں اس کو اپنا وطن چھوڑکر سعودی عرب کی طرف ہجرت کرنا پڑا۔اس نے ایک ریلوے کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 13سال تک کام کیا لیکن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ۔اس کی خواہش تھی کہ میں نے جس طرح پرمشقت زندگی جی ہے ، میرے بچوں کی زندگی ایسی نہ ہو۔اس مقصد کے لیے وہ لبنان چلا آیا۔یہاں اس نے ایک کے بعد ایک کام شروع کیا، 10مختلف کاروباروں میں کبھی وہ کامیاب ہوا اور کبھی ناکام ۔البتہ ایک صبح جب وہ اٹھا تواس کو یہ لرزادینے والی خبر ملی کہ وہ کنگال ہوچکا ہے ۔اس نے جس بینک میں اپنا سرمایہ رکھا تھا وہ سارا کا ساراڈوب گیا۔یہ خبر اس پرقیامت بن کر گری ، وہ شدید مایوس ہو گیالیکن ابھی زندگی کا کھیل باقی تھا۔کچھ عرصہ بعد اس کو اطلاع ملی کہ تیل کی بدولت ساری دنیا سعودی عرب کا رخ کررہی ہے۔چونکہ اس نے زندگی کے زناٹے دار تھپڑ کھائے تھے اس لیے اس وہ جان گیا کہ یہ ایک بہترین موقع ہے۔ وہ جدہ آیا اور حالات کاجائزہ لیاتومعلوم ہوا کہ باہر سے آنے والے لوگ عربوں کی طرح کھجور اوراونٹنی کے دودھ کے ساتھ خشک روٹی کھانے کے عادی نہیں، انھیں ماڈرن خوراک چاہئے جوسستی بھی ہو اور لذیذ بھی۔اس نے ایک مشہور کمپنی کی ایجنسی خریدی اور فرائیڈچکن کاکاروبار شروع کیا۔ دکان میں بجلی نہ ہونے کے باوجود بھی اگلے دوسال تک اس نے نہ دن دیکھا نہ رات اورخوب محنت کی ۔وہ رات کو 12بجے تھکاہارا گھرلوٹتاتواس کے لباس سے تیل کی بو آرہی ہوتی لیکن اس سے زیادہ وہ اس بات پر پریشان تھا کہ سخت محنت کے باوجودبھی فروخت نہیں ہورہی ۔اسی دوران اس پر یہ خوفناک انکشاف بھی ہواکہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے لیکن اس بات کو اس نے اعصاب پر سوار نہ کیااورجی جان سے محنت کرتا رہا۔کچھ ہی عرصے میں اس کاکاروبار چل پڑا لیکن اب اس میں اپنی بیماری سے لڑنے کی ہمت نہیں رہی تھی ،چنانچہ 1976 کووہ اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔شکور ابوغزالہ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ،ایک دن اس کے بیٹے کو فون آیا۔دوسری جانب ریسٹورنٹ کامنیجر تھا جو بتارہا تھا ، سر!مدینہ روڈ والے ریسٹورنٹ کا آج افتتاح ہے لیکن ریسٹورنٹ کھلنے سے پہلے ہی گاہکوں کی 100میٹرطویل لائن لگ چکی ہے جوہمارے فرائیڈ چکن لینے کے لیے بے تاب ہیں۔
آپ کو اگر سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے وہاں کی مشہور سوغات البیک کا مزہ ضرور چکھاہوگا۔آپ کو جان کرحیرت ہوگی کہ یہ برانڈ اپنی پروڈکٹ کی تیاری میں وہی چیزیں استعمال کرتاہے جو باقی لوگ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کا ایک پیکٹ حاصل کرنے کے لیے لوگ لمبی قطار میں کھڑے ہوکر انتظارکرتے ہیں۔ایک عام سی پراڈکٹ کی اس قدر مقبولیت کے پیچھے آخرراز کیا ہے؟ آج کی تحریر میں آپ کے سامنے وہ نکات پیش کریں گے جن پر اس کمپنی کی لیڈرشپ عمل پیرا ہے اور اسی کی بدولت 120برانچز کے ساتھ آج یہ عرب ممالک کا مقبول ترین فوڈبن چکا ہے۔
اس فوڈ برانڈ کے بانی شکورابو غزالہ نے اللہ کو اپنے بزنس میں پارٹنر بنالیاتھا۔رات کوجب وہ دن بھرکا حساب کتاب کرنے بیٹھتا تو جس قدر پیکٹ فروخت ہوئے ہوتے ، فی پیکٹ وہ ایک ریال صدقہ کرتا ۔اگلے دن بزنس دگنا ہوتا ،اور وہ صدقہ بھی دگنا کردیتا۔جیسے جیسے اس کا کاروبار بڑھتا گیااس کے صدقے کی مقدار بھی بڑھتی گئی اور پھر یہ اس قدر بڑی رقم بن گئی کہ کئی سارے خیراتی ادارے اسی رقم پرچلنے لگے ۔1976 میں جب ابوغزالہ کاجنازہ اٹھا تواس کی اولاد کے ساتھ ساتھ یہ ادارے بھی یتیم ہوگئے۔باپ کی وفات کے بعد جب اس کے بیٹوں کو اس خفیہ پارٹنرشپ کا پتا چلا تو انھوں نے اس روایت کو برقراررکھنے بلکہ فی پیکٹ دو ریال صدقہ کرنے کافیصلہ کیا اور پھراللہ کے ساتھ شراکت داری کی برکت سے مختصر عرصے میں یہ برانڈ دنیا بھر میں مشہور و معروف ہوگیا۔
اب آتے ہیں نتیجے کی جانب کہ کا طرح انسان سچا ہو اور اللہ پر یقین کامل رکھتا ہو تو اپنے حالات تک بدل سکتا ہے اور معمولی دین کی باتوں پر عمل پیرا ہوکر بے شک یہ ہماری نہ صرف دنیا بلکہ آخرت بھی سنوار دیتی ہے ۔
٭٭٭