شہر کراچی جو میرا آبائی گھر ہے جس نے لاکھوں غریبوں، مسکینوں اور بے بسوں کو پناہ دی۔ جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا جس کی سڑکیں روزانہ پانی سے دھلتی تھیں۔ یہاں تانگوں اور سائیکلوں کی بجائے ریل گاڑیاں، ٹرامیں اور بسیں چلا کرتی تھیں۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا پڑھا لکھا طبقہ آباد تھا جو تحریکوں کا گڑھ تھا جس نے بڑے بڑے مشہور طلباء رہنما مزدور رہنما پیدا کیئے جنہوں نے ہمیشہ ہر آمر اور جابر کو لکارا تھا۔ جس شہر میں معراج محمد خان، فتحیاب علی خان، علامہ علی مختار رضوی، امیر حیدر کاظمی، عثمان بلوچ، الطاف حسین اور نہ جانے کونسے کونسے لیڈر پیدا کیے ہیں۔ وہ شہر اندھیروں اور اجاڑوں میں ڈھوب گیا ہے یہاں بجلی بند پانی بند سڑکیں بند، نالے بند، راستے بند نظر آتے ہیں یہاں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے پورا شہر کھلا ہوا ہے بے قابو ٹریفک ہوچکی ہے ہر طرف دھواں چھایا ہوا ہے۔ مسافر جب گاڑی سے اترتا ہے تو پہلے اپنی کمر اور ٹانگوں کو سیدھا کرتا ہے ہر طرف کپکپی اور ہیجان کا عالم ہے بڑے بڑے اعلیٰ نیبر ھڈوں باہر گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جس کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کراچی اب تک عجائب گھر بن چکا ہے جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے ایک حصہ اعلیٰ کلاس کا ہے جس کو ڈیفنس اور کلفٹن کہا جاتا ہے۔ دوسرا حصہ بی کلاس، گلشن پی سی ایچ سوسائٹی وغیرہ کے علاقے میں تیسرا حصہ سی کلاس کا ہے جس میں باقی نہ پورا شہر ہے جو کم ازکم75فیصد آبادی رکھتا ہے۔ تاہم کراچی وہ شہر ہے جو آج بھی پاکستان کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے جس کو منی پاکستان کہا جاتا ہے یہاں پورے ہندوستان اور پاکستان سے لوگ آکر آباد ہوئے جن کی اب تیسری یا چوتھی نسل پروان چڑھ چکی ہیں جن کی محنت ومشقت سے پورا ملک چل رہا ہے جو آج بھی مرکز اور صوبے کو دو تہائی مالیات فنڈز فراہم کرتے ہیں جس پر پاکستان کی حکومتی ادارے چل رہے ہیں پھر کیا وجوہات ہیں کہ اہلیان شہر کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے لوگوں کو بنیادی سہولتوں سے محروم کیا ہوا ہے کراچی کے باشندوں کو گندگی کی ڈھیروں میں دبا رکھا ہے۔ شاہد حکمرانوں کا خیال ہے کہ لاوارثوں کے شہر کو بے بس تصور کیا جائے جن کی کمائی ہوئی دولت سے عیش وعشرت کی جائے۔ کوٹھیاں، بنگلے اور عالیشان محل تعمیر کیے جائیں۔ بہرحال پاکستان کی تباہی وبربادی کا ذمہ دار وہ نظام حکومت ہے جس کی بار بار تباہ وبرباد کیا گیا جس کے مجرم جنرلوں کا طبقہ ہے جنہوں نے لیبارٹری سے قیادت پیدا کرکے حکمران بنانے کی کوشش کی ہے جو اب رنگ لا رہی ہے کہ جس کی وجہ سے9مئی کا سانحہ برپا ہوا ہے جس میں جنرلوں کا اپنا پیدا کردہ طبقہ ہے جس کو سزا دینا مشکل ہوچکا ہے قصہ مختصر شہر کراچی کی خوشحالی پورے ملک کی بحالی کے مترادف ہے اگر کراچی کو مزید برباد کیا گیا تو پورا ملک برباد ہوجائے گا ،لہٰذا کراچی کے کھنڈرات سے چھپے ہوئے ہیرے جواہرات نکالے جائیں جس پر پاکستان انحصار کرتا ہے کراچی ہے تو پاکستان ہے ورنہ خدا حافظ۔
٭٭٭