زیب النسا مخفی کے دو فارسی شعر!!!

0
85
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

فارسی ادب کے نامور استاد، محقق اور دانشور ڈاکٹر علی کمیل قزلباش صاحب واٹس ایپ پر فارسی شاعروں کا کلام پوسٹ کرتے رہتے ہیں جو باعثِ تشویقِ جاں اور راحتِ دل کا ساماں ہوتا ہے۔ آج انہوں نے شہنشاہِ ہند اورنگ زیب کی دخترِ نیک اختر زیب النسا مخفی کی ایک فارسی غزل پوسٹ کی جس نے دل تڑپا دیا۔ ایک مدت ہوئی میں نے زیب النسا مخفی کا دیوان پڑھا تھا۔ مجھے یہ غزل پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اسی زمین میں طوطء ہند امیر خسرو کی بھی غزل ہے۔ مخفی کی غزل کا مطلع اور مقطع نذرِ قارئین کرتا ہوں
بت پرستا نیم ، با اسلام ما را کار نیست
غیرِ تارِ زلف ، ما را رشت زنار نیست
ترجمہ: (ہم بت پرست ہیں ۔ ہمیں اسلام سے کوئی سروکار نہیں۔ محبوبہ کے تارِ زلف کے سوا ہمارا زنار سے کوئی رشتہ نہیں) امیر خسرو کی غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیے ۔
کافرِ عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنار نیست
ترجمہ : ( میں کافرِ عشق ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں۔ میری ہر رگ ایک تار بن گئی ہے مجھے زنار کی ضرورت نہیں) زنار وہ دھاگہ ہوتا ہے جو ہندو بازو میں یا گلے میں بطورِ تبرک پہنتے ہیں جیسے عیسائی بطورِ تبرک اور مذہبی رسم کے بطور گلے میں صلیب کا نشان پہنتے ہیں۔ مخفی کی اِس غزل کا مقطع بھی بہت دلسوز اور فکر انگیز ہے۔ کہتی ہیں!
مخفیا گر وصل خواھی ، با غمِ ھجران با ساز
کاندرین گلزارِ عالم یک گلِ بی خار نیست
ترجمہ: ( اے مخفی اگر تجھے وصل کی خواہش ہے تو غمِ ہجراں سے بنا کر رکھ کیونکہ اس گلزارِ دنیا میں ایک پھول بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ کانٹے نہ ہوں) مجھے اپنی اردو غزل کا اس ضمن میں ایک شعر یاد آ گیا!
پھولوں کے ساتھ خار بھی ہیں جزوئے لازمی
اِس واسطے رقیب ہیں اس گلبدن کے ساتھ
گل کی مناسبت سے میری ایک فارسی غزل کا شعر ہے
بو از گل و شرار ز آتش جدا چو نیست
ای بیوفا چرا ز محبان جدا شدی
اب امیر خسرو کے اس زمین میں چند شعر سنئیے اور سر دھنیے
از سرِ بالینِ من بر خیز ای نادان طبیب
دردمنِ عشق را دارو بجز دیدار نیست
ناخدا در کشتء ما گر نباشد گو مباش
ما خدا داریم مارا نا خدا درکار نیست
خلقِ می گوید کہ خسرو بت پرستی میکند
آری آری میکنم با خلق ما را کار نیست
یہ تحریر لکھنے کا مقصد نئی پاکستانی نسل کو فارسی ادبیات کی اہمیت بتانا ہے۔ مرزا غالب فارسی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے۔ وہ کہتے ہیں!
فارسی بین تا ببینی نقش ھائے رنگ رنگ
بگذر ازمجموع اردو کہ بی رنگِ من است
ترجمہ: ( میری فارسی شاعری کو پڑھو اگر رنگ رنگ کے نقوش دیکھنے ہیں۔ میری اردو شاعر ی سے کنارہ کشی کرو یہ تو میری بے رنگ شاعری ہے) لیکن مقامِ حیرت و استعجاب ہے کہ غالب اردو کے بھی سب سے بڑے شاعر قرار پائے۔ اگر اردو شاعری میں سے فارسی کی شیریں تلمیحات، لفظیات، استعارات اور تشہیبات کو نکال دیا جائے تو اردو شاعری کی مثال دید نرگس کی مانند ہے جس میں نہ بصارت ہے اور نہ بصیرت۔
میں کئی اردو ادبیات کے اساتذہ کو جانتا ہوں جو پی ایچ ڈی کی سند رکھتے ہیں لیکن ان کا فارسی ادبیات کا مطالعہ نہیں اور ان کے اشعار میں زبان و بیان کی اغلاط ہوتی ہیں۔ میں جانتا ہوں اور مانتا ہوں کہ آج دنیا بھر میں انگریزی زبان کی اہمیت ہے۔ انگریزی زبان کی علمی اور عالمی برتری اور اہمیت سے انکار حقائق کا انکار ہے۔میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ پاکستان میں جن لوگوں نے سائینس پڑھنی ہے وہ انگریزی زبان کا مطالعہ کریں۔ جنہوں نے اسلام کا مطالعہ کرنا ہے وہ عربی زبان اور جن کا تعلق شاعری اورادبیات سے ہے وہ فارسی زبان کا مطالعہ کریں۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کی انگریزی زبان اور ادبیات کے پروفیسر ہونے کے باوجود میری فارسی شاعری کی تین کتب حلق زنجیر، آتشِ غزل اور جامِ وفا شائع ہو کر ایران اور تاجکستان کے شاعروں اور دانشوروں سے داد و دہش پا چکی ہیں۔اس بات کا ذکر نہ کوئی تعلی ہے اور نہ ہی کوئی خود ستائی۔ یہ نوجوان شاعروں کو ایک مشورہ ہے کہ وہ فارسی زبان اور فارسی ادبیات کا مطالعہ کریں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here