فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! حضور غوث صمدانی، شہباز لامکانی، قندیل نورانی السیّد الشیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ نہ کے اقوال زرّیں میں سے چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا: حسد برُا ساتھی ہے حسد ہی نے شیطان کو ہلاک کیا، اسے دوزخی اور ملعون بنایا۔ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح سوکھی لکڑی کو آگ کھا جاتی ہے۔ طمع کرنے والا اسی طرح خالی ہے جس طرح ”طمع” کے حروف نقطوں سے خالی ہیں۔ محبّ کی وہ آنکھیں ہ ینہیں ہوتیں جن سے وہ محبوب کے سوا کسی اور کو دیکھے۔ حقیقی زید یہ ہے کہ دنیا چھوڑے، آخرت چھوڑے خواہشات ولذّات سب کچھ چھوڑ دے۔احوال و درجات چھوڑے۔ طلب مقامات وکرامات چھوڑے اور سب ماسوائے اللہ کو چھوڑ دے۔ پہلے دل کو دھوئو پھر کپڑوں کو دھوئو۔ دونوں کی دھلائی اور پاکی اکٹھی رکھو کپڑوں کو میل اور دل کو گناہوں سے پاک رکھو۔ قبر اور موت کو اپنے سر کی آنکھوں اور اپنے دل کے پیش نظر رکھو۔ دنیا ”اشغال” ہے اور آخرت ”احوال” اور بندہ اشغال واحوال کے درمیان سفر کرتا ہے۔ پھر اس کا سفر یا جنت ہے یا دوزخ، جب میں نے تمام اعمال کی چھان بین اور جستجو کی تو مجھے معلوم ہوا کہ سب سے بہتر عمل کھانا کھلانا اور حسن اخلاق سے پیش آنا ہے۔ گمنامی کو پسند کرکہ اس میں ناموری کی نسبت بڑا امن ہے۔غیر ضروری بات کا جواب دینے سے بھی زبان کو بند رکھ چہ جائیکہ تو خود کوئی فضول بات کرے اللہ اپنے بندوں سے قرض طلب کرتا ہے اور اس کے قاصد مستحق مسائل ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ گناہ کرتے وقت مخلوق سے تو پردہ کرے اور خالق کا خوف نہ کھائے۔ تیرے اخلاص کی علامت یہ ہے کہ تو خلفت کی تعریف اور مذمت کی طرف توجہ نہ کرے۔ تکبر کرنے سے لوگ تمہیں بڑا نہیں سمجھتے بلکہ تواضع کرنے سے تم بڑے ہوگے جوحکم کی تعمیل نہ کرے وہ خوشنودی آقا سے محروم رہتا ہے۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے علم وعرفان کی شہرت جب دور دراز کے ملکوں اور شہروں تک پہنچ گئی تو بغداد شریف کے اجلّ فقھا میں سے ایک سو فقھاء آپ کے علم کا امتحان لینے کے لئے حاضر ہوئے اور ان فقھاء میں سے ہر ایک فقیہہ بہت سے پیچیدہ مسائل لے کر حاضر ہوا۔ جب وہ سب فقیہہ بیٹھ گئے تو آپ نے اپنی گردن مبارک جھکالی اور آپ کے سینہ مبارک سے نور کی ایک کرن ظاہر ہوئی جو ان سب فقھاء کے سینوں پر پڑی۔ اس وجہ سے ان کے دل میں جو سوالات تھے وہ سب سلب ہوگئے۔ وہ سخت پریشان اور مضطرب ہوئے سب نے مل کر زور سے چیخ ماری اور اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنی پگڑیاں پھینک دیں۔ اس کے بعد آپ کرسی پر جلوہ افروز ہوئے اور اُن کے سوالات جو وہ اپنے دلوں میں لے کر آئے تھے ان کے جوابات ارشاد فرمائے سوال بھی خود بتایا اور جواب بھی خود ارشاد فرمایا اللہ اکبر! اس صورت حال کو دیکھ کر سب فقھاء نے آپ رضی اللہ عنہ کے علم وفضل کا اعتراف کیا، بلاوعجم میں سے آپ کے پاس ایک سوال آیا کہ ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرے گا کہ جیسی وقت وہ عبادت میں مشغول ہوگا تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی عبادت نہ کرتا ہوگا اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہوجائیں گی تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہئے۔ علماء وفقھاء عراق اس مسئلہ کے جواب میں حیران وپریشان تھے۔ آخر جواب نہ دے سکنے کا اعتراف کیا۔ آخر اس مسئلہ کو حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا تو آپ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرما دیا۔ فرمایا: وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کروائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کرکے اپنی قسم کو پورا کرے۔ پس اس شافی جواب سے علماء عراق بہت حیرت وتعجب میں ڈوب گئے کیونکہ وہ اس سوال کا جواب دینے سے عاجر آگئے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ بعض اہل مجلس سے خطاب فرما رہے تھے کہ اتنے میں بارش ہونے لگی آپ نے آسمان کی طرف نظر مبارک اٹھا کر بارگاہ رب العزت میں عرض کی: اے اللہ ! میں تیرے لئے لوگوں کو جمع کرتا ہوں اور تو ان کو منتشر کرتا ہے آپ کا یہ عرض کرنا تھا کہ مدرسہ پر بارش کا برسنا موقوف ہوگیا اور اس کے اردگرد بارش برستی رہی۔
سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے کسی نے آپ کے لقب، ”محی الدین” کی وجہ تسمیہ پوچھی تو آپ نے ارشاد فرمایا سن٥١١ میں تین ننگے پائوں بغداد شریف کی طرف آرہا تھا کہ راستہ میں مجھے ایک بیمار شخص جو نحیف البدن رنگ تھا پلا اس نے میرا نام لے کر مجھے سلام کیا اور قریب آنے کو کہا: جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے مجھے سہارا دینے کو کہا، دیکھتے ہی دیکھتے اسکا جسم صحت مند ہونے لگا اور رنگ و صورت میں تروتازگی نظر آنے لگی۔ میں دیکھ کر ڈرا، اس نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو کہنے لگا میں نے دین اسلام ہوں۔ میں قریب المرگ ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری کا بدولت ازسر نو زندہ کیا پھر میں اس کو چھوڑ کر جامع مسجد میں آیا۔ یہاں پر ایک شخص نے مجھ سے ملاقات کی اور میرے جوتے کو پکڑ لیا اور مجھے سیدّی محی الدین کہہ کر پکارا پھر جب میں نماز پڑھنے لگا تو چاروں طرف سے لوگ آکر میرے ہاتھ کو چومنے لگے اور یا محی الدین کہہ کر پکارنے لگے۔ اس سے پہلے مجھے کسی نے اس لقب سے نہیں پکارا تھا، اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نذرانہ عقیدت پیش فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
تو حسینی حسن کیوں نہ محی الدین ہو
اے خضر مجمع بحرین ہے چشمہ تیرا
حضور غوث صمدانی، شہباز لامکانی، قندیل نورانی السّیدالشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو اللہ پاک نے اتنی عظمت اور شان عطا فرمائی ہے کہ ہر گھر ہر مدرسہ اور ہر مسجد میں ماہانہ ختم گیارہویں شریف باقاعدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے فیوض وبرکات سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭










