واشنگٹن(پاکستان نیوز) واشنگٹن منعقدہ ایک سیمینار میں عالمی اداروں کے نامور ماہرین اور سکالرز کا کہنا ہے کہ عالمی خلائی معیشت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیکر انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ اس وقت عالمی خلائی معیشت جو مواصلات سائنس ، دفاع ، ڈیٹا اور میڈیا میں ریڑھ کی ہڈی رکھتی ہے۔ اس شعبہ میں نجی شراکت داروں نے 600 ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کی ہے اور خیال ہے آئندہ 10 سالوں میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری تقریبا 1.8 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اس صنعت کے ماہرین نے خلائی معیشت کو دو حصوںسے تعبیر کیا ہے۔ جس میں راکٹ ، سیٹلائٹ، لانچ گاڑیاں اور دیگر خلائی ہارڈویئر انفراسٹرکچر اور سروس ، فراہم کرنے والے شامل ہیں۔ دوسرے حصہ میں اسپیس سے چلنے والی ایپلی کیشنز کا حجم ہے، جیسے جیسے خلائی معیشت بڑھتی ہے ، سیٹلائٹ کنیکٹیویٹی زیادہ وسیع ہوتی جاتی ہے اور پوزیشننگ اور نیویلیشن خدمات صنعتوں کے استعمال کے معاملات میں زیادہ مقبول ہوتی ہیں اور ممکن ہے کہ خلا پر مبنی ایپلی کیشنز کو استعمال کرنے کے سے دنیا کے کچھ اہم ترین چیلنجوں جیسے موسمیاتی تبدیلی کو حل کیا جا سکے ۔ ماہرین کے ایک گروپ نے ” گوفار لانچ : شیپنگ دی ٹیکسٹ اسپیس اکانومی” پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں میک کینسی اور ریان بروکارڈ کا کہنا تھا کہ امریکہ میں آئندہ جس مرضی کی کی بھی حکومت – بنے انہیں مستقبل میں خلائی خطرات کے سد باب کے لیے ٹھوس حکمت عملی اور دیرپا پالیسی بنانا ہوگی۔