گلزار جاوید ”خاکِ شفائ،” ایک ناول ایک تاریخ !!!

0
5
کامل احمر

ناویس لکھی جارہی ہیں، ہر ملک میں لکھاری بڑے بڑے ناول لکھ چکے ہیں اور نام کما چکے ہیں۔ ٹاٹسائی کی ”ماں” پیٹرنیک کی ”ڈاکٹر زواگو” شوکت صدیقی ”خدا کی بستی” اور گبرائل گار سیاھار کوئنر کی نوبل پرائز یافتہ1967میں لکھی گئی ناول ”سو سال کی تنہائی” جسےNETFLEXنے اُسی ملک اور وہیں کے فنکاروں کے ساتھ فلمایا ہے۔ کیا خدا کی بستی ہمارے ماحول کی کہانی نہیں اور اس سے بھی آگے جائیں اور گنگاجمنی زبان، ماحول، شاعری اور اس زمانے کی بودوباش کو سمیٹ کر وہ ہی ماحول پیدا کردیں جس میں پڑھنے والا ڈوب کر دلچسپی لے۔ اور اس کا نام ”خاک شفائ” ہو جس کے لکھاری گلزار جاوید ہوں جو بہت عمدہ افسانے لکھ چکے ہیں ماحول کے لحاظ سے زبان اور کردار نگاری اُن کی خوبی ہے ”خاک شفائ” جو394صفحات پر پھیلا ہوا ہے میں آپ کو وہ کچھ ملے گا جو آپ کو نہیں معلوم جن کا تعلق آپ کے پرکھوں سے ہے۔ برٹش حکومت سے ہے جو ہندوستان میں پائوں جما کر بیٹھی تھی١٨٥٧سے پاکستان کے بننے کے بعد تک کی کہانی ہے۔ شاعری ہے جوش ملیح آبادی اور شیغ الہ آبادی کے بیچ قریبی تعلق۔ پیرزادوں کی شیطان حرکتوں سے مرصع ایک چونکا دینے والا ناول ہے۔ کہ پہلے تو شروع صفحہ کو پڑھنے کے بعد گرفت مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ ہر چند کہ ہماری عمر کے لوگوں نے پڑھنے لکھنے سے دور بہت دور کردیا ہے۔ اورI-PHONEہوتے ہوئے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ کتابی دور ختم ہوچکا ہے پہلے جو پڑھے لکھے خاندانوں میں لائبریاں ہوتی تھیں ان کی جگہ تحفے سجے ہوئے ہیں۔ اور تو اور نہ یہاں اور اپنے ملک میں بھی فلموں سے تعلق ختم ہے اور گلزار جاوید صاحب نے یہ سب کچھ بتایا ہے ساحر لدھیانوی سے نور جہاں تک بس ایک کمی رہ گئی یا پھر دھیان نہیں گیا ہوگا۔ اے آر کا ردار کے تعاون سے ایم صادق کی ہدایت کاری میں بنی فلم زتن اور اسکی ریلیز کے بعد اس کے اثرات لیکن پھر بھی گلزار جاوید نے یہ کتاب لکھ کر آگ کا دریا کو دیا ہے کہ وہ ہماری کہانی نہیں تھی ”خاک شفائ” ہمارے پرکھوں کے دور کی کہانی ہے اور جس طرح اسے ناول کے ڈھانچے میں سمویا ہے یہ فنکاری ہے۔نژ سے لے کر بیچ بیچ میں شاعری اور وہ محاورے جو بھلا دیئے گئے ہیں۔ جیسے یہ منہ اور مُسور کی دال، پڑھو فارسی، بیچو تیل، چودھویں کا چاند، بوت کے کے پائوں پالنے میں، اونٹ جب پہاڑ کے نیچے، دریا کو کوزے میں کے علاوہ بیت بازی، ایک پیسے کی گلوری، مرغ بازی آگے جائیں تو ساحر لدھیانوی کے گانوں، بگڑی ہوئی تقدیر بنالے۔ چھٹ بھیوں کو حکمران بنا دیا گیا۔ اور ”ایک شہنشاہ نے بنوا کے حسین تاج محل ہم غریبوں کی محبت کا اڑیا ہے مذاق” ہندو مسلم کی سنگت میں محفلیں سجنا، گنگا جمنی تہذیب کی زبانی پڑھتے وقت ہمیں اُسی دور میں جانا پڑتا ہے۔ جیسے ایک ہونہار اور باصلاحیت ہدایت کار، ڈاکٹرزواگو، یاگاڈفادر ناول کو پردے پر اس طرح پیش کرتا ہے کہ دیکھنے والا خود کو بھول کر اس دور میں لے جاتا ہے،بس یہ ہی خوبی ناول ”خاک شفائ” کو نمایاں بناتی ہے۔ساتھ ہی اس دور کی بول چال اچھی، شائستہ اور بازاری کہ پڑھ کر آپ اُف خدایا کہیں اور ہم ڈرتے ڈرتے لکھ چلیں یا کاپی کریں۔ ” ”بارہ بارہ گھنٹے چوتڑ گھسنے کے بعد ایک اور جانا پہچانا جملہ ”اماں بائولے ہوئے ہو” یہ یوپی کی زبان ہے بدایوّں اور دہلی کی مشترکہ زبان اور ماحول ہے۔ جگہ جگہ جملے چست کئے گئے ہیں کرداروں کی اپنی زبان میں ”بیٹا تم ہر وقت غالب کی.میں گھسُے رہنا اور جلیبیوں دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ رامائن بھگوت گیتا کا کم سہارا لیا گیا ہے۔ گائے اور سور کے سسر کی اول بدلی، ہندو اور مسلم کا ایک دوسرے سے بتیر اور جوابی حملہ، فتح پور سیکری، گوڑ گائوں، فرید آباد، بھرت پور، دوسا اور ستھرا سب سنے سنائے شہر ہیں لیکن جانے کا اتفاق نہیں ہوا اور خوبی یہ گہ جوش صاحب کی شاعری سے محسن بھوپالی کے شعر
”نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
جب سے اب تک مثال بنا رہتا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا گلزار جاوید صاحب نے واقعات جو رونما ہو رہے ہیں۔نثر اور پھر شاعری کی زبان میں بیان کردیئے ہیں اس طرح کہ جس محنت اور صبر کے ساتھ انہوں نے یہ ناول لکھا ہے پڑھنے والے کو بھی اس کا ہی ثبوت دینے کی ضرورت ہے ناول نویسی کا یہ نرالہ دور انوکھا انداز اطراف کو سمیٹ کر چلنے کا گلزار جاوید صاحب کا ہی عطیہ ہے یہ ناول پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے یہ ناولوں کے چنائو میں ”THE LAST OF MOHICANS” ہے جو ایک فلم کا کردار ہے (شمالی امریکہ کے قبیلے کا کردار) نہ صرف یہ بلکہ استعمال میں گھروں میں کام آنے والی اشیاء کا ذکر بھی ہے” سلپچی جو کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ ان ساری باتوں کے استعمال سے ناول کا ماحول بنایا گیا ہے جو بہت خوب ہے۔ خیال رہے سمجھنے کے لئے ناول کو بغور پڑھنے کی ضرورت ہے یہ نہیں کہ تیزی کے ساتھ دو دو صفحے چھوڑ کر پڑھیں اس ناول میں شعراء اور ادیبوں وہ نام بھی ملینگے۔ جو ہم بھولتے جارہے ہیں اور آنے والی نسلوں سے توقع رکھنا فضول ہے کہ ہمارے بعد ان چراغوں میں روشنی نہ ہوگی۔ لیکن لائبریریوں میں یہ ناول ملے گی۔ پشاور کے اداکاروں کا ذکر ہے لیکن یوسف خاں کا نہیں۔ البتہ بیجوبائورا کا ذکر ہے یہ ناول کبھی کبھی پڑھتے وقت ناول کیا ہے خواب ہے دیوانے کا ”جس میں تھیٹر کی تاریخ ملے گی تاریخ کے ساتھ ساتھ گریش چند٨٦ڈراموں کے خالق کا نام بھی اور رامّیاد ستاوّیا میں نے دل تجھ کو دیا بھی ”گنا گنائے گی۔ ادب لطیف سے ناصر کاظمی پاکستان میں نور جہاں اور نذر محمد کا پرانہ قصہ، جسے کبوتری کا نام دیا ہے جیسا تھا ویسا ہی لکھا گیا ہے۔ اور بھی اس ناول میں ماحول کو ابھارنے والے ناشائستہ(آج کے دور میں لکھنے کی حد تک) واقعاتت بھی صاف گوئی سے ہیں جس کے لئے میں گلزار جاوید صاحب کی جرات کو سلام کرونگا۔ کہ یہ کتاب منٹو کے وقت آتی تو کورٹ کنچھری کا آنا جانا ہوتا۔
اس ناول کو پڑھ کر لکھنا پڑتا ہے کہ یہ ”بشیں بہا یادوں پر بھرپور ناول ہے جس میں سہراب مودی کا مرزا غالب کو انکے مزار کی مرمت کرا کے خراج تحسین دینا ہے۔ فلم رتن کی نمائش کے بعد لڑکیوں کے گھروں سے بھاگ جانے کے واقعات مشہور ہوئے اس کا ذکر ہے لیکن حوالہ نہیں۔ نئی ایجادوں کا ذکر بھی اُسی زمانے کا تعّین کر رہا ہے ناموں کے ذریعے ماحول کو برقرار کیا گیا ہے اور فلم کے اسکرین پلے کی مانند سامنے دکھایا ہے یہ اور خوبی ہے اس ناول کی۔ ناول پڑھنے کے بعد دوسرے دن سے اب تک ذہن میں اس کی گردش ہے کہ عمران خان اور اس کے دو دوستوں کی آپس میں تکرار اور چھیڑ چھاڑ۔ پھپّو کی بے ایمانی کا ذکر ہجرت کرنے والوں کا ذکر یہ سب کچھ ہے اس ناول میں نیویارک سب وئے بھی چل رہی ہے۔
آخر میں گلزار جاوید صاحب نے نیویارک ویسٹ چیپٹر میں ایک ادبی اور شاعری کی محفل کا ذکر بھی کیا ہے جس میں وہ خود نہیں تھے۔ لیکن لگتا ہے تھے، یونس شعر سے ماحول ایمن کی نوک جھونک جوکسی بھی شاعرانہ محفل کی شان ہے شامل ہے انہوں نے2012تک کی یاد دہانی کرائی ہے ناول کا یہ نیا اسلوب ہے کہ کس طرح اس محفل کو جوڑا گیا ہے خمار بارہ بنکوی کا شعر نہ وہ دل ہے نہ وہ شبااب خماد کس لئے اب حیات باقی ہے سلطان جمیل نسیم، قمر علی عباسی، محسن بھوپالی کا ذکر حیدرآباد اور کراچی کے تعلق سے ہے یہ جملہ جیسے شاعرہ ہو رہا ہے ارے واہ واہ لوٹ لیا پھر پڑھئے شاعرہ برپا کردیا ہے۔”انہیں پتھروں پر چل کر اگر اسکو تو آئو۔ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے ضیاء الحق بھی یاد چھوڑ گئے ہیں ابن صفی اور جو ہر میر بھی شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here