اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جا گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے ۔وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالی اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔ظلم اور جبر کے نظام نے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے۔اس فرسودہ نظام نے اکثریث کے دماغ کو خالی کردیا ہے۔ یہ نظام آپکو کھا جاتا ہے، آپکی صلاحیتوں کو نچوڑ دیتا ہے۔نظاموں کی حیثیت خدائی نظام کی ہوتی ہے جس میں انسانیت کا احترام،انصاف اور روزگار کی فراہمی ،رواداری اور اخلاقی قدریں ہوا کرتی ہیں،آپ ایمانداری سے اس نظام کی خدمت کرتے ہیں،بدلے میں آپکو کرپشن اور بے انصافی ملتی ہے۔ بیروزگاری اور مفلوک الحالی سے پالا پڑتا ہے،ظلم اور جبر جھیلنا پڑتا ہے۔ ہمارے بچے ملک چھوڑ چھوڑ کر بہتر مستقبل کی تلاش میں سمندر کی لہروں میں جان گنواتے ہیں۔ ہزاروں نوجوان گزشتہ تین چار سالوں میں اپنی جان سمندر کی نذر کرچکے ہیں۔ ظالم معاشرہ اور سفاک درندے حکمران ہیںجنہیں رعایا سے کوئی سروکار جوان بہنیں ہر گھر میں کنواری بیٹھی ہیں۔ہمارے معاشرہ میں فساد اور بگاڑ اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ اچھائی اور برائی کی تمیز بھول چکے ہیں جھوٹ اور سچ میں فرق نہیں کر پارہے۔قارئین !۔ جب معاشرے میں فساد عام ہو جاتا ھے تو نیک لوگوں کو انکی نیکی پر طعنے دکھے جاتے ہیں۔اخلاقیات سے عاری لوگ اچھائی اور نیکی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی خافظ نعیم الرحمن کا کہنا ھے کہ فرسودہ نظام اور اسکے پہریدار اپنے آپکو زمینی خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ ھمیں ملکر اس استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد تیز کرنا ہوگی۔ جماعت اسلامی گزشتہ ستر سال سے عوام کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہی ھے۔ جس میں نہ ووٹوں کا لالچ اور نا ہی کسی منصب کی حرص۔ بے لوث اور اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والے افراد ہیں۔ صحافیوں کے خلاف پیکا قانون کا اجرا حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو صحافتی حلقوں سے خوف زدگی کی علامت ھے۔ حکومت کسی کی بھی ہو،حکمران صحافیوں کو برداشت نہیں کرتے۔پی آتی آئی اپنے دور اقتدار میں صحافیوں پر قدغن لگا چکی ھے۔ ان پارٹیوں میں جو بھی اپوزیشن میں ہو۔اسے صحافیوں سے ہمدردی کے مڑوڑ اٹھتے ہیں۔ پاکستان میں ہر لیڈر دا پر ھے۔ منافقت اور دوغلا پن ان کی رگوں میں دوڑ رہا ھے۔ ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی ابن الوقتوں کے ٹولے ہیں۔ نواز شریف نے آئی جے آئی کے کاندھوں سے اقتدار حاصل کیا۔ اقتدار میں پہنچتے ھی اکیلے پرواز کرنا چاہی ۔انکی بدنیتی کی وجہ سے اتحاد ٹوٹ گیا۔مذہبی جماعتوں کا الائنس متحدہ مجلس عمل وجود میں آیا۔ کامیابی کے بعد مولانا فضل الرحمن طاقت کے ذعم کا شکار ھوئے اور اتحاد ٹوٹ گیا۔پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی سے الائنس کیا ، کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کے کرپٹ عناصر کو مڑوڑ اٹھنا شروع ہوئے اور اتحاد پارہ پارہ ہوا ۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے بانی ممبر حفیظ اللہ نیازی صاحب نے اپنے کالم میں ذکرکیا تھا کہ جماعت اسلامی کے امیر سید منورحسن اور عمران خان کے مابین کافی اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی جس کی بدولت دونوں نے جنرل الیکشن اکٹھے لڑنے کا فیصلہ کیا اور دونوں جماعتوں نے کمیٹیاں بنا دی جو باہم مل کر سیٹوں کے حوالے سے معاملات طے کرینگی، حفیظ اللہ نیازی کہتے میں بھی کمیٹی میں شامل تھا ، ہمیں عمران خان نے جماعت اسلامی کی کمیٹی سے ملنے سے روک دیا اور کہا انہیں بس ٹالتے رہیں تاکہ وقت ضائع ہوتا رہے اور یہ ن لیگ سے رابطہ بھی نہ کر سکیں اور ہم بھی انہیں ساتھ نہیں لے گے کیونکہ عالمی طاقتیں اسے اچھا نہیں سمجھیں گی، بس جماعت اسلامی کو لٹکائے رکھو تاکہ یہ کسی اور سے معاملہ نہ کر سکیں،
یہ ایک قومی لیڈر اور ریاست مدینہ کے علمبردار کا اصل چہرہ ھے ۔
یہ ہے عمران خان کی اصلیت اور کرتوت، دھوکے کا آغاز اور منافقانہ سیاست کپتان نے آغاز سے ہی شروع کر دی تھی حالانکہ جماعت اسلامی اتحادی بن کر نہ کسی کو بلیک میل کرتی ہے، نہ کرپشن کرتی ہے ، نہ کک بیک اور مال بناتی ہے، اور نہ ہی پیٹھ پیچھے چھرا گھونپتی ہے لیکن عمران خان کو یہ سب کام اچھے سے آتے ہیں۔آج اگر پختونخواہ میں پی ٹی آیی کی حکومت ہے تو وہ جماعت اسلامی کی محنت کا ثمر ھے۔ جماعت اسلامی اس وقت خیبر میں اتحادی رھی۔سراج الحق صاحب سینئر منسٹر تھے ۔
پی ٹی آئی ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتی ھے۔ لیکن اتحاد کے لئے سیکولر عناصر کا انتحاب کرتی ھے۔ کبھی اسٹبلشمنٹ کو گالیاں اور پھر مذاکرات کے لئے منت و سماجت۔
اب اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر ایوزیشن اور حکومت میں مذاکرات شروع ہوئے۔ حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات باقاعدہ ختم ہونے پر
پی ٹی آئی کومولانا کی یاد ستانے لگی ھے۔ مولانا بھی چھبیسویں ترمیم پر حکومت کے ساتھ مل گئے تھے۔ مولانا حصہ پورا نہ ملنے پر حکمرانوں کے خلاف کبھی کبھار پھوکے فائر کرتے رہتے ہیں۔
عوام اندھی،اور گونگی ھے۔ان سیاسی بدمعاشوں کی چالاکیاں اور بدنیتیاں نظر بھی آتی ہیں لیکن لکیر کے فقیر کے مصداق جیالے، پٹوار اور یوتھئیے کہلانا فخر محسوس کرتے ہیں۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کی اتنی عزت وتوقیر نہیں کرتے۔ جتنی ان سیاسی راہزنوں کی کرتے ہیں۔
ھمارے پاس دیانتدار، ایماندار، باکردار ،محب وطن قیادت جماعت اسلامی کی شکل میں موجود ھے۔لیکن ھمارا دماغ میں عقل کا خانہ خالی ھے۔ اس لئے کرپٹ، بددیانت، لٹیروں کو ووٹ بھی دیتے ہیں ، جان بھی چھڑکتے ہیں۔
ھمارا پیمانہ معیار نہ اچھا کردار ھے اور نہ ایمانداری ھے۔ اسلئے بھیڈ چال کا شکار ہیں۔ ہر شخص ایمانت و دیانت ،کردار و افکار،حب الوطنی اور اخلاقیات کا درس دیتا ھے۔ لیکن ان بد کردار، ڈاکوں کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔
بازار سے خربوزہ خریدتے وقت ھم بہت چھانٹ پھٹک کرتے ہیں۔لیکن جنہوں نے پورا ملک چلانا ھے۔ ھماری آئیندہ نسلوں کا مستقبل کے گیا دلے کرنے ہیں۔ انکے چنا میں اپنے ہی ضمیر سے دھوکہ کرتے ہیں۔
#تکبیر_مسلسل
اس طوق کو اپنی گردن سے اتار پھینکئے!
مولانا سید الحسینی فرماتے ہیں۔
ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اگر سردی سے بچنے کے لیے شام کو لحاف یا کمبل اوڑھ لیتے ہیں توصبح کو فورا اتار پھینکتے ہیں، اس لیے کہ حالات اور موسم کا یہی تقاضا ہوتا ہے، لیکن اپنی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں ہم نے ایک ایسا کمبل اوڑھ رکھا ہے جو نہ ہمیں چھوڑتا نہ ہم اسے چھوڑ پاتے ہیں ، رات کی سردی ہو یا دو پہر کی گرمی ، ہم اس لبادہ کو اتارنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں اور اگر کوئی اس کی دعوت دیتا ہے تو برا مانتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان مسائل میں بھی جو روز روشن کی طرح صاف اور واضح ہیں اور ان کھلی ہوئی حقیقتوں میں بھی جن میں کسی سچے اور مخلص انسان کو کوئی شک یا اختلاف نہ ہونا چاہیے ، یہ کمبل یا لبادہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ تا ریا ہم اس کو نہیں چھوڑتے ، ہم دین کے کسی سند کے بغیر اپنے بنائے اور تراشے ہوئے خانوں میں خود ہی قید ہیں اور ان خانوں سے باہر اگر کسی چیز کی دعوت ہمیں دی جاتی ہے، کوئی آواز ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہے، تو وہ ہمیں بہت نامانوس، اجنبی اور بعض وقت مشکوک اور مشتبہ اور کبھی کبھی مضر اور مہلک معلوم ہوتی ہے، ہم میں سے جو اپنے طلسم میں جتنا گرفتار ہے، حالات کے ادراک ، بروقت اور صحیح فیصلہ کی صلاحیت اور اخلاقی جرات سے اسی قدر دور اور محروم ہے۔پی ٹی آئی کے سپورٹرزصحافی امریکی امداد کی بندش پر بغلیں بجا رہے ھیں۔ بڑھ بڑھ کر بیان داغ رہے ہیں ۔صحافیوں کو سیاست سے پاک قلم کی حرمت کا خیال کرنا چاہئے۔ملکی سلامتی اور ملکی وقار کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ حب الوطنی اور نظریات
پر سمجھوتا نہیں کرناچاہئے۔
صحافی برادی پی ٹی آئی اور ن لیگ میں تقسیم ھے۔ ن لیگ کے بٹوہ صحافی صبح سے شام تک جھوٹ اور عمران فوبیا کا شکار ہیں۔ ایسے ہی پی ٹی آئی کے ہمدرد صحافی پاکستانی معشیت کو ڈوبتے دیکھر تمسخر اڑاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بد بودار شخص شہباز گل کا کہنا ھے کہ پاک پیک نے ایک لیٹر امریکہ وزیر خارجہ کو لکھا ھے جس میں پاکستان میں انسانی حقوق کے نام پر مخبری کا فریضہ انجام دیا جارہا ھے۔ ھم پارٹی پالیٹکس میں ایسے اندھے ہوتے ہیں کہ ملکی سلامتی اسر وقار کو مدنظر نہیں رکھتے۔ یہ ھمارا المیہ ھے کہ ھم اپنے سر میں خاک ڈالنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جو پارٹی بھی اقتدار سے باہر ہو وہ غیر ممالک کے لئے ملک دشمنی کا کردار ادا کرتی ھے۔جو حقیقتا ھمارے معاشرے کی تباہی ہے۔اس لئے میرا ماننا ھے کہ وطن عزیز کی سلامتی ، ترقی و خوشحالی اور کرپشن سے پاک معاشرہ کے قیام کے لئے جماعت اسلامی سے بہتر کوئی اور چوائس ہو نہیں سکتی۔
٭٭٭