ریاست مدینہ اور شریعت کے علمبرداروں کی طرف سے ٹرانس جینڈر بل کی حمایت پر جے یو آئی کی منافقت اور پی ٹی آئی کی اسلام پسندی کھل کر سامنے آگئی ہے۔اقتدار کے کھیل میں خزب اقتدار اور خزب اختلاف کے سیاسی گماشتوں نے اپنی عاقبت خراب کرلی۔ ربیع الاول کے مہینہ میں ٹرانس جینڈر بل منظور کرنے اور کروانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائینگے۔ھمارے مذہبی رہنما میلاد منانے کو عشق مصطفے اور نہ منانے والوں کو گستاخی قرار دیتے ہیں۔سینٹ اور قومی اسمبلی میں یہ مذہبی اکابرین اقتدار کے لئے اپنی زبانوں کو تالااور غیرت کو لپیٹ دیتے ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتیں چوروں ، ڈاکوں کے لئے ازخود نوٹس تو لیتی ہیں ۔ مگر شریعت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع اور ٹرانس جینڈر بل کے خلاف انکی دینی حمیت پر کرسی اور بیرونی ایجنڈا غالب آجاتاہے ۔میرا جسم میری مرضی تحریک ھو ۔ یا بے حیائی پرمشتمل ٹرانس جینڈر بل ۔ اقتدار کے بھوکے مولوی سو جاتے ہیں۔مذہبی لبادہ اوڑھنے والے فضل الرحمن کو (تہتر کے آئین کے تناظر )میں اس بے حیائی کی حمایت،ڈھٹائی اور بے شرمی نے ،انکے ھوس اقتدار کو عیاں کیا ہے۔وفاقی شریعہ کورٹ میں جے یو آئی کا ٹرانس جینڈر ایکٹ کی حمایت کا اعتراف،فیڈرل شریعہ کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران جمیعت علمائے اسلام کے وکیل نے ٹرانس جینڈر قانون کی حمایت کا اعتراف کر لیا جس پر چیف جسٹس شرعی عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ جے یو آئی نے خود ٹرانس جینڈر قانون منظور کیا، اب یہاں کیا لینے آئی ہے؟ جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا قانون کیخلاف دیگر درخواستیں پہلے سے زیر سماعت ہیں۔ جس پر چیف جسٹس شریعت کورٹ نے استفسار کیا کہ آپکی درخواست میں کیا نیا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ اپنی جماعت کی نمائندگی چاہتے ہیں۔چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نے پوچھا کہ کیا جے یو آئی قانون کی منظوری میں شامل تھی؟ وکیل نے جواب دیا کہ جے یو آئی نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی حمایت کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ قانون خود منظور کیا تو عدالت کیا لینے آئے ہیں؟ کیا یہ جے یو آئی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ جائزہ لیکر قانون بناتے؟ عدالت نے مزید ریمارکس میں کہا پانچ سال بعد جے یو آئی کو یاد آیا جب درجن درخواستیں عدالت آ چکی ہیں۔ جے یو آئی کے وکیل نے کہا ہم نے جنس تبدیلی کے اختیار کی شق چیلنج کی ہے۔چیف جسٹس شریعت کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جس شق کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ غلط ہے، لگتا ہے آپ نے قانون پڑھا ہی نہیں، پانچ سال پہلے آپ کو نہیں پتہ تھا کہ قانون کا غلط استعمال ہوگا؟ وکیل کامران مرتضی نے موقف اپنایا اندازہ ہے کہ عدالت آنے میں تاخیر ہوگئی ہے، پارلیمنٹ میں ترمیمی بل بھی جمع کرا دیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آنے کے بجائے پارلیمان میں بولنا چاہیے تھا۔ تاہم عدالت نے جے یو آئی کی درخواست بھی دیگر کیساتھ منسلک کرتے ہوئے ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ ہواں کا رخ بدل گیا ہے ۔ جو کل عدالتوں اور قوم کے مجرم تہے انکے کیس تیزی سیختم کئے جارہے ہیں عمران خان ، مریم نواز کے بعد فیصل واوڈا نااہلی کیس کی سماعت میں چیف جسٹس کے ریمارکس نے عندیہ دے دیا ہے کہ میاں نواز شریف ، دانیال عزیز ،طلال چوہدری اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی سزائیں ختم ہونے جا رہی ہیں ۔یہ عدالتیں صرف مجرموں کو تخفظ فراھم کرتی ہیں ۔ عوام کا ان عدالتوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔عوام انصاف کے حصول کے لئے کئی کئی سال عدالتوں میں خوار ھوتے ہیں۔جھوٹوں اور فراڈیوں کی اس دنیا میں قانون اور آئین کی خلاف ورزی۔اداروں کو دھمکانا۔ججوں کو خریدنا ۔عدلیہ اور انصاف کی خرید و فروحت جاری ہے۔جو جج کل نواز شریف ،زرداری اور مریم کو چور قرار دیتے تھے آج انکی تمام کیسوں سے بریت نے انصاف کو ننگا کردیا ہے۔
منصف قلم بیچے یا جسم یہ درندے آئین پاکستان ۔ نظریہ پاکستان ۔ اسلامی جمہوریہ کے منہ پر بدنما دھبہ ہیں،مجرم حکمران ھوں ۔ بیوپاری جج ھوں تو انصاف جرنیلوں اور مجرموں کے ترازو میں ذلیل و رسوا ھوگا۔پارلیمنٹ تو مجرموں کی آماجگاہ تھی ۔ لیکن جرنیلوں کی چھڑی اور نوٹوں کی چھنکار نے عدالتوں کو بے توقیر کر دیا ہے۔ احتجاجی سیاست ۔ مذہبی منافقت اور جرنیلوں کی اکھاڑ پچھاڑ نے نظریہ پاکستان کی تمام اکائیوں کو منتشر کردیا ہے۔ آجکل سائفر کے چکر میں ن لیگ اور پی ٹی آئی نے قوم کو بیووقوف بنا رکھا ہے۔سیلاب سے تباہ حال چار کڑوڑ عوام کیطرف کسی نظر نہئں ۔ قوم عطیات دینے اور متاثرین کی امداد کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹی ۔ جن لوگوں نے سیلاب متاثرین کے نام پر اربوں جمع کئے انہیں جلسوں کی بجائے ۔ سیلاب سے تباہ حال لوگوں کے درمیان ھونا چاہئے تھا۔
سیاسی ،اخلاقی اور مذہبی کلچر کی تباہی نے ہمیں اندرونی اور بیرونی طور پر منتشر کردیا ہے۔سیاسی اشرافیہ کی نظر میں آئین، قانون اور نظریہ پاکستان کی کوئی وقعت نہیں ۔ جرنیل ھوں یا جج ۔ سیاسی لیڈر ھوں یا مذہبی رہنما ۔آئین کو بالائے طاق رکھے ریاست اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں۔تحریک لبیک ھو یا جے یو آئی ۔ انکا اپنا ذاتی اور سیاسی ایجنڈا ہے۔سیلاب کی تباہ کاریوں میں پاکستان کے ستر فیصد علاقے متاثر ھوئے ۔پی ٹی آئی نے بارہ ارب جمع کئے لیکن پورے سیلاب میں ٹائیگرز نظر نہیں آئے ۔ پاکستان میں ایسے غیرت مند جرنیلوں کی ضرورت ہے جو ملک کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرسکیں۔
پاکستان کو ایسے مذہبی رہنماں کی ضرورت ہے جو پراڈو اور لیکسس کی بجائے تقوی اور دیانت کو اپنا شعار سمجھتے ھوں۔مذہبی راہزن نہ ھوں۔ایسے سیاسی لیڈروں کی ضرورت ہے ۔ جو حب الوطنی ،نظریاتی تشخص اور اسلامی قدروں کے آمین ھوں۔اخلاقی اقدار کے کے حقیقی علمبردار اور ایمانت و دیانت کا حقیقی مجسمہ ھوں ۔ ن لیگ اپنے کیس معاف کروانے ۔ پی ٹی آئی کو جلسوں سے فرصت نہئں ۔ فضل الرحمن ،ایم کیوایم اور (جی ڈی اے ) وزارتوں کو سینے سے لگائے سب کچھ بھول گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں تیونس کی پارلیمنٹ میں ایک اظہار رائے کی آزادی کے متعلق ایک بل پیش کیا گیا جس میں اللہ رب العزت اور اسلام کو گالی دینے کی بھی کھلی آزادی دی گئی،بیرونی دبا پر تمام پارلیمنٹ خاموش۔
لیکن ایک مرد مجاہد رکن پارلیمنٹ ابراہیم القاس میدان میں آگئے ۔ اور پوری پارلیمنٹ کو للکارتے ھوئے کہا کہ یہ بل میری لاش سے گزر کر ھی پاس ہوسکتا ہے،اس با غیرت اور با حیا رکن پارلیمنٹ نے اپنی قمیض اتار کر باقاعدہ لڑنے کے لئے تیار ہوگیا۔شیر کی پکار سے سارے چوہے دب گئے۔اور وہ بل پاس کرنے کی ہمت نہ کرسکے لیکن ہماری پارلیمنٹ میں کوئی ایسا شیر نہیں ۔ہماری فوج میں کوئی ایسا با غیرت جرنیل نہیں۔ ہماری سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں کوئی ایسا باہمت جج نہیں ۔ جو بے حیائی،بے غیرتی کے آگے کھڑا ہوسکے ۔ جب شیر اور ٹائیگرز خود بل پیش کرنے اور پاس کرنے والے ھوں ۔ مخافظ اور امام راہزن ہوں تو پھر ایسے معاشروں پر اللہ کے عذاب کا آنا ٹھہر جاتا ہے۔جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف سیلاب متاثرین کی مدد میں میدان عمل ہے۔ بلوچستان ، خیبر پختونخواہ، سندھ، پنجاب اور گلگت، بلتستان میں جماعت اسلامی کے رضاکار عوامی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔سینٹ قومی اسمبلی اور اور سندھ اسمبلی میں ایک سیٹ رکھنے والی جماعت اپنا کردار بھرپور طریقہ سے ادا کررہی ہے۔قوم کو جماعت اسلامی کی ہر محاذ پر نمائندگی کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔اقتدار کے بھوکوں ،قومی مجرموں اور 75 سال ملکی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والوں کو مسترد کرکے ایماندار، محب وطن ، نظریاتی لوگوں کو منتخب کرنا چاہئے ۔ جو خدمت خلق کو اخلاقی اور مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں،وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔
٭٭٭