نعت لکھنا تیغِ بے نیام پر چلنے کے مترادف ہے۔ یہ اللہ کے محبوب کے دربارِ اقدس میں جذبات و عقیدت کی حاضری ہے۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں۔ ذرا سا بے ادب لفظ نعت گو کے اعمال کو ضائع کر سکتا ہے۔ آپکی جگہ تم کا لفظ گستاخی میں شمار ہوتا ہے۔ بڑے نعت گو شعرا اس سلسلہ میں بہت محتاط ہیں۔ بقولِ شاعر!
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید اینجا
قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ پاک نے حضوراکرمۖ کے لئے توصیفی الفاظ و القاب استعمال کیے ہیں جیسے کہ یاسین ، مزمل اور مدثر ،اسی لئے مرزا غالب کو کہنا پڑا۔
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کان ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
نعت کا روایتی انداز مبنی بر عقیدت اور آرزوئے نجاتِ آخروی ہے۔ جامی کی نعتیں اس کی عمدہ مثال ہیں۔ علامہ اقبال جو کہ سچے عاشقِ رسول تھے انہوں نے ایک بھی نعت نہیں لکھی۔ البتہ ان کی غزلوں اور نظموں میں اکثر نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ وہ روایتی اور عقیدتی نعت کی بجائے اپنے اشعار میں اسلام کا انقلابی پیغام پھیلانے اور اسو رسول پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں !
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
جب اقبال حضرت محمد ۖسے وفا کی بات کرتے ہیں تو اِس سے مراد عشقِ رسول و عقیدتِ رسول ۖکے ساتھ ساتھ وہ انقلاب ہے جو پیغمبرِ اکرم لائے جس نے قیصر و کسری کے در و بام ہلا کر رکھ دئیے اور نظامِ زور و زر کو زمیں بوس کر دیا۔ فوزیہ اختر ردا نے نعتیہ مجموعہ کی pdf مجھے بھیجی ہے اور میری رائے مانگی ہے۔ جس چیز نے مجھے کیف و کیفیت سے بہرہ مند کیا وہ ان کے عقیدتی کلام کے علاوہ وہ نعتیں ہیں جو اسلام کے عالمی، انسانی اور انقلابی تصور کو اجاگر کر تی ہیں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نعت کے ذریعے اسلام کے ازلی و ابدی پیغام کو اور رسولِ اکرمۖ کی انقلابی شخصیت کو دنیا بھر میں متعارف کرایا جائے۔ فوزیہ اختر ردا کے اکثر اشعار مقصدیت و افادیت کے پیمانے پر پورے اترتے ہیں جس کے لئے وہ مبارک باد کی بھی مستحق ہیں اور یہ ہدیہ نعت ان کے لئے سرمایہ نجات بھی ہے، ایک نعت کے انقلابی و اصلاحی اشعار ملاحظہ ہوں!
یہ دور صاحبِ کردار کی تلاش میں ہے
دیارِکفر میں غم خوار کی تلاش میں ہے
مرے حضور کے معیار کی تلاش میں ہے
نوائے حق ابھی حق دار کی تلاش میں ہے
قدم بہکنے نہ پائیں کبھی سراب کی سمت
یہ کارواں کسی سردار کی تلاش میں ہے
بات تلاش کی ہے تو بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے کے مصداق بات علامہ اقبال کے اِس شعر تک آن پہنچتی ہے، یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الہ الا للہ اللہ نے نسلِ ابراہیم ہی سے تا قیامِ قیامت اسو رسول صلعم کو مینار نور بنا کر انسانیت کو راہِ مستقیم دکھا دی ہے۔
٭٭٭