گذشتہ منگل یعنی 16 مئی کے دِن سابق وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کی ضمانت ہوگئی تو وہ گھر واپس لوٹنے کیلئے اپنے وکیل کی گاڑی میں بیٹھ گئے لیکن چند ساعت بعد ہی پی ٹی آئی کے ایک رکن نے اُنہیں فون پر یہ اطلاع دی کہ پولیس اُنہیں دوبارہ گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر پہنچانا چاہتی ہے ، اور اُن کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے،فواد چوہدری کے پاس اِس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ گاڑی سے اُتر کر مخالف سمت دوڑنا شروع کردیں۔ اُن کے دوڑنے کی اطلاع فورا”وزیراعظم ہاؤس تک پہنچ گئی اور شہباز شریف نے وزیراعظم ہاؤس میں ایمرجنسی نافذ کردی اور خود تہہ خانہ میں جاکر چھپ گئے، وہاں سے اُنہوں نے پاکستان ائیر فورس کے چیف ظہیر احمد بابر سدھو کو فون کیا اور حکم دیا کہ ایف- 16طیارے سے فواد چوہدری کی نگرانی کی جائے، کیونکہ وہ دوڑتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی طرف آ رہے ہیں، ایئر فورس کے چیف ظہیر احمد بابر ،شہباز شریف کی باتوں کو سمجھ نہ سکے اور اُنہیں کہا کہ ” یہ کیا آپ سر پھرے انسان کی طرح باتیں کر رہے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی امریکی یا اسرائیلیوں کی طرح اپنے سادہ لوح سویلین پر ڈرون حملہ کریں ؟ یہ ہم سے ناممکن ہے ” ” ظہیر احمد صاحب آپ یہ فراموش نہ کریں کہ آپ کو ایئر فورس کے چیف کے عہدے پر فائز کرنے کیلئے میں نے ہی سفارش کی تھی. ” شہباز شریف نے جواب دیا” یہ ایک من گھڑت دعویٰ ہے، آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہونا چاہتے ہیں، آپ کے پاس باڈی گارڈ ، پولیس فورس موجود ہیں ، وہ آپ کی حفاظت کرسکتی ہے، ہم ایئرفورس والے اِس طرح کی نیچ حرکت نہیں کرتے” ظہیر احمد نے کہااور ٹیلی فون ہینگ اپ کردیالیکن شہباز شریف کے سیکرٹری اُن کے کام آگئے اور اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ اسٹریچر پر لیٹ کر بذریعہ ایمبولنس فوجی ہسپتال چلے جائیں ، وہاں اُن کا چیک اپ بمع دماغ کے ہوجائیگا اور ساتھ ہی ساتھ فوجی گارڈز اُن کی تشفی بخش حفاظت بھی کرینگے۔ تاہم اِس امر کا کسی کو علم نہیں کہ آخر کیوں وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ تمام مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر رہے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ماضی میں رانا ثنا کسی بھی دستاویز پر دستخط کرنے کے بجائے اپنے انگھوٹے کی چھاپ لگایا کرتے تھے، گزشتہ ہفتے روڈ ٹو مکہ کی ایک تقریب میں وزیر داخلہ رانا ثنا کو دیکھا جاسکتا ہے جو تمام دستاویزات پر دستخط کر رہے تھے، اور اُن کے پیچھے وزیراعظم شہباز شریف اردلی کی طرح ہاتھ باندھ کھڑے تھے، اِسی لئے کہا جاتا ہے کہ سیاستدان ضرورت پڑنے پر گدھے کو بھی اپنا باپ بنا لیتا ہے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی ، معلوم ہوا ہے کہ موصوف نے دستخط انگریزی یا اُردو میں کرنے کے بجائے پنجابی میں کیا تھا اور نام بھی پنجابی کا ”ثنا دی چماڑ” تحریر کیا تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی اچانک گرفتاری پر جو عوامی ردعمل ظہور پذیر ہوا بعض حلقوں اور خصوصی طور پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ایک ہوّا بنا دیا تھا لیکن عوام کی اکثریت اِسے محض سیاسی ہنگامہ سمجھ کر نظر انداز کردیا ہے تاہم کچھ لوگ ہر بات سے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا وہ وزیراعظم شہباز شریف کو یہ پیغام بھیج رہے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے خلاف بیان دینے کیلئے تیار ہیں اگر اُنہیں 40 لاکھ روپے کی رقم نقد ادا کی جائے بعض نے پانچ کنال زمین اسلام آباد میں مانگنی شروع کردی، اُنہوں نے دلیل یہ پیش کی کہ بیان دینے سے اُن کا فیصل آباد میں رہنا دشوار ہوجائیگا ، اِسلئے اُنہیں اسلام آباد میں ایک نیا مکان دیا جائے، معلوم ہوا ہے کہ شہباز
شریف ایسے لوگوں کیلئے اسلام آباد میں ایک چمچہ کالونی بنانے پر غور و خوض کر رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے رہنما پی ٹی آئی کے کارکنوں سے رابطہ کر رہے ہیں اور اُنہیں پیشکش کر رہے ہیں کہ نوکری لینی ہے تو لے لو، زمین لینی ہے تو وہ بھی لے لو ، لیکن پی ٹی آئی کے خلاف بیان دے دو، صرف یہ کہہ دو کہ تمہیں فلاں پی ٹی آئی کا رہنما اپنی بی ایم ڈبلو میں بیٹھاکر جی ایچ کیو لے گیا تھا،مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما تو پنڈی کے ایک ڈی ایس پی کے ساتھ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی کے گھر پہنچ گئے،ڈی ایس پی نے رکن قومی اسمبلی کو ہراساں کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اُن کے خلاف بے شمار ایف آئی آر درج ہوئی ہیں اور اگر وہ پی ٹی آئی سے استعفیٰ نہیں دیتے تو اُن کی گرفتاری ہوسکتی ہے، رکن قومی اسمبلی نے جواب دیا کہ وہ تو پارٹی نہیں چھوڑ سکتے ہیں ، کیونکہ ایسا کرنے سے اُنہیں اُن کے حلقہ کے لوگوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑیگا البتہ شاید اُن کے والد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں، فی الحال وہ لاہور گئے ہوئے ہیں، دوسرے دِن وہ دونوں پھر وارد ہوگئے ، رکن قومی اسمبلی نے فرمایا کہ اُن کے والد نے کہا ہے کہ اُن کے پاس پیسہ او ر مکان دونوں ہے، لیکن اگر کوئی خاتون مہیا کردی جائے جس سے وہ شادی کرسکتے ہوں تو وہ بلاشبہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوسکتے ہیں، ڈی ایس پی نے اُن کے والد کی عمر دریافت کی جو 80 سال تھی، دونوں خراماں خراماں وہاں سے رخصت ہوگئے۔
پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے مابین تنازع کی وجہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب تھا، جس کے 14
مئی کے دِن انعقاد کا سپریم کورٹ نے بھی حکم دے دیا تھا،پی ڈی ایم نے الیکشن سے فرار حاصل کرنے کیلئے نیب کے ساتھ مل کر القادر یونیورسٹی کے سکینڈل کا شوشاچھوڑدیا ، اور اب پی ڈی ایم دہشت گردی کا الزام سابق وزیر اعظم عمران خان پر عائد کر رہی ہے، سیاسی مبصرین کی رائے میں پی ڈی ایم کی یہ ساری حکمت عملی ملک کو ماضی کی طرح بنگلہ دیش کی تاریخ کی جانب دھکیل رہی ہے۔