اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے سال 2025ء کے حوالے سے عالمی صورتحال کیساتھ وطن عزیز کے موجودہ سیاسی حالات کے سبب کسی مثبت اقدام کے ہونے پر نا اُمیدی کا اظہار ہی کیا تھا جس پر بعض قارئین کا سوال ہمارے لیے یقیناً اہم ہے لیکن واضح رہے کہ بطور ایک لکھاری ہمارا فریضہ حالات کی صحیح تصویر کی عکاسی ہے حالانکہ بطور ایک محب وطن پاکستانی ہماری نیت پاکستان کے مثبت رُخ کو اُجاگر کرنا ہی ہوتی ہے۔ پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے، ایک جانب سیاسی نزاعی کیفیت ہے تو دوسری طرف دہشتگردی کے سبب کے پی اور بلوچستان میں ہی نہیں بیرونی محاذ آرائی سے بھی نبرد آزمائی کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان دشمنی میں افغانستان اور بھارت کی سہولت کاری کی بیخ کنی کیلئے پاکستان کا ایئر اسٹرائیک، ڈی جی آئی کا تاجکستان کا دورہ، چین کی جدید اسٹرائیک فائٹرجیٹس کی پاکستان کو فراہمی ایک سلسلہ ہے تو دوسری طرف اندرونی سیاسی محاذ آرائی میں کمی آنے کیلئے کوئی کمی نظر آنے کے آثار نہیں ہیں۔ مذاکرات کی کہانی تکمیل پاتی دکھائی نہیں دیتی ، وجہ یہ کہ ”دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی ہے”۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام اور نزاعی کیفیت کا اصل ماخذ دو افراد یعنی سربراہ فوج اور سربراہ پی ٹی آئی ہیں اور دونوں اپنی اناء و ضد کے حصار میں گھرے ہونے کے سبب کوئی لچک دکھانے پر تیار نہیں، حکومت تو محض مہرہ ہے۔
مذاکرات تو صرف ایک دکھاوا ہی لگ رہے ہیں، ہماری اس تحریر تک تین بیٹھکیں ہو چکی ہیں مگر نتیجہ نشستند، گفتند برخواستند کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ حکومتی کمیٹی کا پی ٹی آئی سے اپنے مطالبات تحریری طور پر دینے کا تقاضہ ہے تو دوسری طرف سے اس حوالے سے بانی کی اجازت نیز اجلاس کی کارروائی کی رپورٹنگ میں اندراج کو مؤقف بنایا جا رہا ہے ہماری نظر میں مذاکرات محض وقت گزارنے کا ڈھکوسلہ اور گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے سواء کچھ نہیں، 189 پائونڈز کیس کے فیصلے میں التواء اور 9 مئی و 26 نومبر کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کی دعویداری بے معنی نہیں ہے۔ لاہور میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی 40 حمایتی صحافیوں سے آف دی ریکارڈ پریس بریفنگ بھی اس امر کی نشاندہی ہے کہ نظام اور مؤقف میں کسی تبدیلی کی کوئی امید نہیں۔ آرمی چیف اور کپتان دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اڑے ہوئے ہیں۔ زمیں جنبدنہ جنبد گُل محمد” کی یہ کیفیت ممکن ہے دونوں افراد کیلئے موافق ہو لیکن پاکستان اور عوام کیلئے ہر گز مفید نہیں ہو سکتی بلکہ مزید انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بحرانی کیفیت کا کوئی حل بھی ہے یا دونوں فریق اپنی انا کے چکر میں ہی ڈٹے رہیں گے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قائدین کے درمیان اختلاف و برتری کی لڑائی متعدد بار ہوئی ہے اور نتیجے میں ایک وزیراعظم تختۂ دار پر بھی لٹکایا جا چکا ہے جس کی موت کو 50 برس بعد سپریم کورٹ نے غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیدیا ہے۔ ایک خاتون وزیراعظم دہشتگردی کی نظر ہو گئی ہے تاہم متعدد بار ایسا بھی ہوا ہے کہ بیرونی مداخلت یا معاہداتی طریقہ کی بناء پر مفاہمت ہوتی رہی ہے لیکن موجودہ آرمی سربراہ اور عوام کے موجودہ ہیرو اور قائد کی فطرت اور مزاج کے تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر حالات میں کوئی تبدیلی متوقع نہیں بلکہ خدانخواستہ 1979ء کا وقوعہ نہ دہرایا جائے۔ خدا نہ کرے اگر ایسا کچھ ہوا تو قومی بھونچال بلکہ تنزل وطن عزیز کی قسمت بن سکتا ہے۔ حالات کی بہتری کیلئے وقت کا تقاضہ ہے کہ دونوں جانب سے متوازن و مصالحتی کردار کا مظاہرہ کیا جائے۔ افسوس اس امر پر ہے کہ اس حوالے سے اگر اسٹیبلشمنٹ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو کپتان اپنے عزم، استقلال اور عوامی حمایت کے بل پر کسی مفاہمت یا ڈیل کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ ضد اور اناء کی اس آگ پر تیل چھڑکنے میں دونوں جانب کے سوشل میڈیا بریگیڈ پیش پیش ہیں، ان کا مقصد کسی بہتری کیلئے نہیں ہے بلکہ خصوصاً بیرون ملک بیٹھے لاگرز اور ٹک ٹاکرز اپنے ڈالرز بنا رہے ہیں۔
اناء اور ضد کے اس تنازعے کا وطن عزیز اور عوام کیلئے انتشار اور نقصان ہی ہوگا، فلاح کا راستہ نہیں نکلنا ہے، ہمارے پاس اس کے علاوہ جواز نہیں کہ دونوں ضدی فریق اپنی اناء سے دستبردار ہو کر ملک و عوام کی فلاح کیلئے حکمت عملی اپنائیں کہ یہی صراط مستقیم ہے، موجودہ بیساکھیوں والی حکومت سے مذاکرات لاء حاصل ہے، ان کا مقصد محض یہ ہے کہ اس لڑائی کو جاری رکھا جائے اور مقتدرین کے سہارے ان کی حکومت چلتی رہے، ویسے حصول اقتدار کے چکر میں بھان متی کے کنبے میں دراڑیں اب بھی پڑ رہی ہیں۔ یا رب مرے وطن کو شاد و آباد رکھنا۔ آمین۔
٭٭٭٭٭