آج 31اکتوبر ہے اور شام ہوچلی ہے۔ بھوت ،پریت ،چڑیلیں ،گلیوں، محلوں میں نکل کھڑی ہوئی ہیں گھروں کے اندر باہر بولنے والے بھوت کھڑے کردیئے ہیں۔ آپ پاس سے گزریں گے ،آپ کو ڈرائونی آواز نکال کر ڈرا دیں گے۔ بچوں نے مختلف ڈرائونے لباس زیب تن کر رکھے ہیں۔ اور ہاتھ میں باسکٹ ہے، گھر کے باہر آکر آواز لگاتے ہیں۔ ٹرک آرٹریٹ یعنی آپ ہمیں کچھ دیتے ہو یا ہم آپ کو ڈرائیں اور کارروائی کریں۔ میں نے اپنے دروازے کے باہر ایک باسکٹ مختلف چاکلیٹ اور ٹافیوں کی رکھ دی ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے یہ خودساختہ بھوت ،پریت ،چڑیلیں ،بڑی ایماندار ہیں۔ صرف ہر بچہ ایک یا دو ٹافی اٹھاتا ہے ،باقی دوسروں کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ آج شام کو اگر کوئی مسافر امریکہ میں آجائے تو اس کو سمجھ نہیں آئے گی کہ میں نارمل انسانوں کی بستی میں آیا ہوں۔ یا بھوتوں اور چڑیلوں کی بستی میں، ہمارے یہاں امریکہ میں صدر امریکہ کے گھر سے لیکر عام امریکی گھر تک سارے ہی ہالو وین کاشکار ہیں۔ ماسوائے ان چند مسلمان گھروں کے جن کے اندر اسلامی زندگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے مگر نہ عام مسلمانوں کے بچے بھی آج بھوت پریت بنے ہوئے ہیں۔ جب ہمارے بچے دوسرے مسلمان بچوں کو بتاتے ہیں تو اچھا اگر یہ غلط کام ہے تو ہمارے ماں باپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا۔ اس میں کوئی شک نہیں آج کل یہاں بھی مہنگائی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں بسا اوقات میاں بیوی دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں کو ٹائم نہیں دے پاتے بہرحال ذمہ داری تو ہے یہ لعنت آئرلینڈ برطانیہ فرانس کے لوگ امریکہ لے کر آئے یہ ایک دو ہزار سال پرانا تہوار تھا۔ جیسے1921ء میں امریکہ مائیگریشن کے بعد یوروپین لوگوں نے نیا رنگ دے کر متعارف کرا دیا جس زمانے میں یہ تہوار منایا جاتا تھا وہ بہار کے اختتام پر سردی کے پہلے دن یعنی یکم نومبر کو مناتے تھے 31اکتوبر کی شام سے ہی وہ آگ کے بڑے بڑے الائو جلاتے کھیتوں سے بڑے بڑے پیٹھے کرو نکال کر دروازے پر رکھتے ان کا عقیدہ یہ تھا۔ بہار کے اختتام پر مردوں یا بدروحوں کو تھوڑی سے دنیا میں آزادی ملتی ہے اور وہ دنیا میں آکر فتنہ وفساد قتل وغارت کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں ڈرائیں ہم انہیں مار بھگاتے ہیں۔یہی فلسفہ تھا۔ پوپ گربگوری نے جب عیسائیت پھیلی ابتدائی ایام تھے۔ اس نے کہا کہ ہم اس تہوار کو(ڈے آف اولیاء اللہ) یعنی نیک لوگوں کا دن منائیں گے اس کا نام ہوگا ہالو ماس یعنی نیک لوگوں کی عبادت مگر وہ کامیاب نہ ہوا مذہبی دن تو نہ بن سکا البتہ ثقافتی دن یعنی میلہ ٹھیلہ مگر کاسیٹوم کے ساتھ اور یوں سب کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اب ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ سعودی عرب کے شہر ریاض میں مین بیلوارڈ پر عرب ملبوسات میں بھوتوں، پریتوں اور چڑیلوں نے واک کی جیسے پوری دنیا کے میڈیا نے ہائی لائٹ کیا۔ تو باقی مسلمان ممالک کا کیا حال ہوگا گلوبل ویلج اور کیپٹلزم نے اس تہوار کو بزنس کا ذریعہ بنا لیا ہے کسی سے پوچھو یہ کیا کر رہے ہو جواب ملتا ہے ساری دنیا کر رہی ہے۔
٭٭٭