جھپٹنا ،پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ کے تحت آجکل اپوزیشن عمران خان اور اتحادی اپنا اپنا لہو گرم کر رہے ہیں ،جنرل الیکشن منعقد ہونے میں صرف اٹھارہ ماہ رہ گئے، اس دوران بلدیاتی الیکشن بھی ہونے ہیں اب تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے ورکرز کا لہو گرمانا بنتا ہے، پی ٹی آئی نے قریشی کیساتھ سندھ میں شارٹ مارچ کیا پی پی پی بلاول کی نگرانی میں کراچی تا اسلام آباد مارچ میں لانگ مارچ ن کے صدر کی کمر میں چک ہے، وہ چوہدریوں کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر پیالی میں طوفان اُٹھانے کا شوق فرماتے رہے ،جے یو آئی انتظار میں کہ کوئی گرے تو جھپٹیں افواج پاکستان تیئس مارچ کو لہو گرمائیں گی ،اسی گرماگرمی میں سوئے ہوئے شیر بھی جاگ گئے ،سابق سینیٹر وزیر پنجاب عبدالعلیم خان جو استعفیٰ دیکر سکون میں تھے ،اب میڈیا کی تلوار سے لیس جہانگیر ترین کے ہاتھوں ڈالے ہاتھ آگے بڑھ کر بزدار حکومت کو لرزانے کیلئے تیار تاریخ بتاتی ہے کہ پنجاب کا والی ہی اگلا وزیر اعظم ہوتا ہے ،ساٹھ فیصد عوام کو سہولیات مہیا کرنے والا طاقتور پنجابی مگر ڈر یہی کہ کہیں مرکز سے الجھ نہ پڑے ،ماضی میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں غالبا اسی لیے عمران خان نے بزدار کو پنجاب کے لیے چنا تھا کہ نگرانی وہ خود کریں گے۔ فیڈرل کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں مرکز میں بیٹھ کر صوبہ چلانا آسان نہیں اوپر سے میڈیا کی دو دھاری تلوار اب اگر علیم خان اور جہانگیر ترین ایک ہو کر عمران خان کو اس نہج پر لے آئیں، علیم خان اور باغی گروپ کا سوال کہ جیتنے کے بعد کچھ پی ٹی آئی ورکرز کو کیوں کھڈے لائین لگا دیا یہی وقت ہے کچھ کشید کرنے کا نیب کے کیسز بھی چلتے رہیں ایف آئی اے کی پیشیاں بھی بھگتیں مگر ورکرز کو پیچھے نہ چھوڑیں ،یورپ والی جمہوریت آتے آتے آئے گی جو برا ہوگا پکڑا جائے گا، پاکستان کے قانون میں سزا ہوتے ہوتے پانچ سال گزر جاتے ہیں عمران خان ایک کلچر فروغ دینا چاہتے ہیں صحیح مگر پرانی ڈگر چھوڑنے کو قوم تیار بھی تو ہو کسی نے بھوکے سے پوچھا دو اور دو کتنے بولا چار روٹیاں ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ ڈالنے والوں سے جمہوریت کی امید، ہاں بالکل رکھیں، اُمید رکھنا اچھا ہوتا ہے لیکن پہلے بھوکے کو کھانا کھلائیں پیٹ بھرا ہو گا تو سوچیں بھی بہتر آئیں گی کپتان تو موقع کی مناسبت سے سٹریٹیجی تبدیل کرتے رہتے ہیں ،وسیم اکرم پلس اگر فارم میں نہیں آرہا تو علیم خان یا کسی اور سے بالنگ کروا کر دیکھ لیں سیاست کا ورلڈکپ جیتنا ہے تو تبدیلی کرنے میں بھی ہرج نہیں ہونا چاہئے اگر پرانی کرپٹ رجیم عدم اعتماد کی بدولت، غیر ملکی ایجنڈے کے تحت، اپنوں کی ناراضگی یا لڑائی کی وجہ سے دوبارہ اقتدار میں آگئی تو نئے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہوگا بہتر ہے اپنے روٹھے ہوں تومنا لیں انکی چند جائز خواہشات کی تکمیل ایک بڑے مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئیں اتحاد و اتفاق میں برکت اور طاقت ہوتی ہے۔
٭٭٭