جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ”نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس پر وقت کے ساتھ ساتھ شعراء حضرات سے سنگرز نے بھی یاد دہانی کرائی ہے۔ اور عمران خان نے آکر حقیقت کا چہرہ دکھا دیا ہے کہ ایسا مکروہ چہرہ جس کا تصور کرنا محال ہے۔ وہ جنہیں ہم اپنا محافظ سمجھتے تھے وہ ہی قذاق نکلے اور تقریباً تمام سیاست داں ان کے پالتو ایک دوسرے کے سہولت کار یہ قذاق ان دو کوڑی کے قاتل اور ڈاکوئوں سے ذلیل وخوار ہوئے اور اب قوم کو منہ چڑا رہے ہیں میرا مطلب آرمی جنرلز ہے جو منہ چھپائے خاموشی سے ملک کے وسائل اور نوجوان نسل کے مستقبل پر قابض ہیں انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ پھر ان کے آلہ کار عدلیہ کے 90فیصدی ججیز جو سپریم کورٹ سے سول کورٹ تک ان کے تابع ہیں۔ سیاست دان اور آرمی جنرلز ایک دوسرے کے لئے جنگل میں سانپ اور نیولے کے مانند ہیں یعنی ایک دوسرے کو ڈراتے رہتے ہیں۔ اور اپنا کام کرتے رہتے ہیں عوام کا خون چوستے رہتے ہیں کیا خوب ایک عیاش اور منافق جنرل باجوہ جو امریکہ کے پے رول پر تھانے جاتے جاتے زہر اگلا کہ ہم سیاست میں رہے ہیں اور اب ایسا نہیں ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی کھلنڈرہ بچہ بار بار چھوٹے بچوں کو تنگ کرلے اور گھر کے بڑے اُسے تنبیہ کریں ا ور بار بار وہ ایسا کہے”اب نہیں کرونگا” اور گھر میں بیٹھی بڑی خالہ دے لہجے میں کہے ”چل جھوٹے” پھر دوسرا جنرل آئے عاصم منیر حافظ قرآن اور کہے اپنے معاملات آپس میں بیٹھ کر طے کرو ہمارا کوئی واسطہ نہیں اور پھر13جماعتوں کے جتھے کی جانب سے ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوجائے جو ثناء اللہ جس پر ماڈل ٹائون میں قتل وغارت گری کا الزام ہے ایک بھگوڑے اور گھر کے بھیدی نوازشریف کی لفنگی بیٹی کے ساتھ مل کر پنجاب میں پولیس کے ذریعے نہتے عمران خان کا جینا محال کردے اور جب عوام اسکی حفاظت کو آئیں تو بکتر بندر گاڑیاں بلڈوز، واٹر کینن، گاڑیاں لے کر پکڑ دھکڑ شروع کردے۔ من گھڑت الزام لگائے دوسری جانب میڈیا خرید کر پریس کانفرنس کرے جھوٹ پر جھوٹ بولے۔ مریم نواز بھی لمحہ بہ لمحہ عمران اور عوام کو اشتعال دلائیں۔ ”آبیل مجھے مار” نہ صرف یہ بلکہ کراچی میں مراد علی شاہ(زرداری کا شاہ دولہہ) بھی انگلی کاٹ مکاروں میں شامل ہو”PTI ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ عمران خان گرفتاری سے ڈر رہے ہیں۔” گزشتہ دنوں سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب نے دیکھ لیا۔ اس گھٹیا اور نامعقول انسان سے کوئی پوچھے کہ زرداری گینگز جو کچھ عرصہ سے سندھ میں کر رہی ہے وہ بھی سب دیکھ رہے ہیں۔ رائو انوار سے لے کر شرجیل میمن اور آیان علی کے گرفتار ہونے پر کسٹم آفیسر کے قتل کی واردات ابھی تازہ ہے زرداری کی بہن فریال خوبصورتت نام کے ساتھ جن بھوتوں کی کہانی کی ڈائن کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ مریم نواز کہتی ہے۔ عمران خان نے قانون سے بچنے کے لئے دہشتگرد اور شرپسند اپنے گھر میں رکھے ہوئے ہیں ایسے مناظر پہلے دہشت گردی کے حوالے سے دیکھنے کو ملے ہیں۔PTIایک دہشت گرد جماعت ہے پاکستان کو اس وقت نوازشریف کی ضرورت ہے ہم کہینگے ”بی بی تمہارے ہوتے ہوئے پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے کسی کی ضرورت نہیں۔ عدلیہ کے ہوتے ہوئے ثناء اللہ، عاصم منیر کے ساتھ مل کر جو کچھ کر رہا ہے وہ باہر کا پلان ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو عمران خان دوبارہ نہیں آنا چاہیئے ساڑھے تین سال میں اس نے سارے بدمعاشوں کو جو اداروں کے سربراہ ہیں ننگا کردیا ہے ویسے مہوش حیات اور باجوہ کی ویڈیو وائرل کرنے میں مریم کے علاوہ کسی کا ہاتھ نہیں اردو ادب میں ایسے کرداروں کو پاکھنڈی یا چھنال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اندازہ کریں خود کو جوان کرنے کے لئے اور ثناء اللہ اور پولیس کے لوگوں کو لبھانے کے لئے اس نے20لاکھ پونڈ کی چار بار پلاسٹک سرجری کرائی ہے۔
دوسری طرف آرمی کےISPRدبے دبے لہجے میں کہہ رہے ہیں کہ پاک فوج قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں یہ پولیس کے ساتھ جو رینجرز ہے وہ کیا ہے۔ لہذا منہ بند رکھیں اور مال بنائیں۔ شکر، گوشت سیمنٹ اور ریل اسٹیٹ کا کاروبار کریں یقیناً قوم ان کے ساتھ ہے حالیہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا سنگین واقعہ ہے کہ چند غنڈہ صفت حکومت کے کارندوں نے قانون کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔18مارچ کی جگہ14مارچ کو ہی پولیس اور رینجرز نے زمان پارک میں بلڈوزر لے کر چڑھائی کردی اور دوسری واردات جب عمران خان عدالت جانے کے لئے نکلے تو پھر یلغار کی اور زمان پارک کے کمپائونڈ میں گھس کر توڑ پھوڑ بچائی۔ ادھر اس سے پہلے عمران خان کے شیدائی اور جان نثار ایک معصوم شخص ظل شاہ کو اغوا کرکے اسکے جسم کو سر سے پائوں تک توڑا پھوڑا پرائیویٹ پارٹس کو کچلا یہاں جاپانی فوج کی چینی عوام پر بربریت کی مثال سامنے آگئی۔
عمران خان کا کہنا ہے عوام جو اسکے ساتھ ہیں ان دس سالہ بچے بھی ہیں جنہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔ خود اس پر کئیFIRکاٹی گئی ہیں جو اب100سے تجاوز کر گئی ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے فاشنرم کی کوئی مثال نہیں ملتی کیا یہ عوام کی جانوں کی حفاظت کرسکتے ہیں انکے منہ شریف برادران کا حرام کا مال لگ گیا ہے اپنے عہدے بڑھانے کی ریس میں آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں اور یہ سارے حقائق آرمی جنرلز کے سامنے ہیں انہیں اندھا نہیں کہہ سکتے وہ حکم عدولی گناہ سمجھتے ہیں اور وہ حکم ہے ”عمران کو اقتدار نہیں ملنا چاہیئے” کوئی تک سمجھ نہیں آتی اس افراتفری کی جب کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کی تاریخ دے دی ہے کل یہ پنجاب کے وزیراعلیٰ محسن نقوی کی لاہور میں اور عطا بندیال کی کوئٹہ میں پریس کانفرنس ہوئی ہے جس میں وہ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت تصادم چاہتی ہے امن نہیں عطا بندیال پوچھ رہے ہیں وسائل کے باوجود ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا۔ محسن نقوی کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں لہذا وہ بھوسے میں آگ لگا رہا ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ شخص کربلا کی نئی تاریخ لکھنے کی بجائے جلتے انگاروں پر چل کر کہتا تو شاید یقین کر لیا جاتا۔
فیض احمد فیض ادب شاعری علمیت میں ایک مہذب او رمعتبر نام ہے یہ اشعاران ہی کے ہیں35سال پہلے حالات کا نقشہ کھینچا تھا اور آج کے حالات پر پورے اترتے ہیں زمان پارک کے حوالے سے
جس دیس سے مائوں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچھری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کر لکھتا ہو
اس دیس کے ہر ایک لیڈر پر سوال اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر ایک حاکم کو سولی پر چڑھانا واجب ہے
یہ چند اشعار کہہ رہے ہیں چیخ چیخ کر کہ عوام اشرفیہ کا گھیرائو کریں عبدالستار ایدھی نے کہا تھا ملک کو سدھارنے کے لئے3ہزار کو لٹکانا ہوگا ہمارے خیال میں300کافی ہیں بزدل حکمران جن میں فوج کے سپہ سالار عدلیہ کے راشی ججیز، پولیس کے پالتو حکام، میڈیا کے زر خرید شامل ہیں۔ اسلام کو بچانے سے پہلے ملک کو بچانا ہوگا۔ شاید امریکہ کے 34ویں صدر آئزن ہاور نے یہ بات ثناء اللہ اور اسکے حواریوں کے لئیح1950میں کہی تھی ”کسی کتے کی جسامت سے حملہ کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا
اس کے اندر جو نفرت کی آگ ہے وہ طاقت کا معیار ہے”
اور پاکستان کے حالات پر امریکی صدر جارج واشنگٹن نے بہت پہلے کہا تھا۔ آج جو میڈیا نے عوامی رائے اور اسکے لیڈر پر پابندی لگائی ہے حکومتت کے حکم سے۔ ”اگر ہم آزادی رائے چھین لیتے ہیں تو جاہل اور گونگوں کو لیڈ کرتے ہیں جیسے بھیڑ کو ذبحہ کرنے لے جاتے ہیں” اور پاکستان کے درندہ صفت حکمرانوں اور طاقت ور اداروں کے سربراہان کے لئے یہ کافی ہے اگر ان کی سمجھ میں آجائے۔
”امن اور انصاف ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں”
آخر میں لکھتے چلیں۔ جو ڈاکٹر محمد ڈھانڈ لانے کہا ہے ایوان میں بلند آواز میں ”افسران کے گھروں کی تلاشی لیں اربوں ڈالر ملینگے الیکشن ہونگے یا نہیں بندیال نے یہ کہہ کر شبہ کا اظہار کیا ہے۔
”الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا” عمران خان کے بقول جو کچھ ہو رہا ہے لندن میں بیٹھے ایک بھگوڑے کی پالیسی پر عملدرآمد ہے۔” امریکہ کہہ چکا ہے شاید صدر بائیڈن کو اس کا علم نہیں ”عمران نہ کھپّے”! کیوں؟ اس کیوں کے پیچھے ایک تاریخ ہے گوگل کرکے پڑھ لیں۔
٭٭٭٭