پاکستان میں حالات اس وقت نیا موڑ لینے والے ہیں، سیاسی کشیدگی ملک کے حالات سدھارنے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آ رہی ہے ، مسلم لیگ ن سمیت اتحادی جماعتیں کسی صورت بھی تحریک انصاف سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کی جماعت کی جانب سے اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ ایک نکاتی ایجنڈے پر آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے تیار ہیں اور ایک نکاتی ایجنڈ ا ملک میں انتخابات کا انعقاد ہے ۔ملک میں جاری سیاسی بھونچال کو ختم کرنے کے لیے ثالثی ، مذاکرات ہی واحد حل ہیں ،کسی سیاسی جماعت کے خلاف تشدد، آپریشن، زور، زبردستی کسی صورت کامیابی کی نوید ثابت نہیں ہو سکتا ہے ، حکمران جماعت مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم، جے یو آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اور ان کے سرکردہ رہنما اس لیے بھی تحریک انصاف سے نفرت اور بغض کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کو عدالتوں سے اس طرح ریلیف نہیں مل سکا جس طرح عمران خان کو مل رہا ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف بھی اپنے اس دکھ کا اظہار متعدد مرتبہ مختلف تقاریب کے دوران کر چکے ہیں کہ عمران خان نیاز ی کو جس طرح پاک فوج اور عدالتوں نے سپورٹ کیا ہے ، ایسی حمایت اس سے قبل کسی بھی حکومت کے نصیب میں نہیں آئی ، اسی وجہ سے مسلم لیگ ن سمیت اتحادی جماعتیں کسی صورت بھی تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس چھ گھنٹے طویل وقفے تک جاری رہا جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا ، اجلاس میں ملک کی معاشی و سیاسی، داخلی و خارجی، امن و امان کی مجموعی صورت حال پر غور کیا گیا۔اعلامیے کے مطابق اجلاس میں طے پایا ہے کہ 22 مارچ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ریاستی عمل داری یقینی بنانے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں گے، عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے والی پولیس اور رینجرز پر عمران خان کے حکم پر حملوں اور تشدد’ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پٹرول بم، ڈنڈوں، غلیلوں، اسلحہ، کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل متشدد تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویش ناک ہے، حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ ‘یہ ریاست دشمنی ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا،ریاست کے مقابلے میں ہتھیار اٹھانا، ان کے افسروں اور جوانوں کو نشانہ بنانا، ان پر گولی چلانا، گاڑیاں جلانا، عدالتی احاطوں کا محاصرہ کرنا، قانونی ڈیوٹی ادا کرنے والے پولیس اہلکاروں کو راستے میں روک کر تشدد کا نشانہ بنانا لاقانونیت کی انتہا ہے جسے کوئی بھی ریاست برداشت نہیں کرسکتی۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں شریک جماعتوں کا کہنا تھا کہ ‘پوری قوم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ کالعدم تنظیموں کے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کا جتھہ ہے جس کے تمام شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ لہذا قانون کے مطابق اس ضمن میں کارروائی کی جائے۔نظام عدل کے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک سے ترازو کے پلڑے برابر نہ ہونے کا تاثر مزید گہرا ہو رہا ہے جو ملک میں آئین، قانون اور عدل کے اصولوں کے لیے نیک فال نہیں،ایک ملک میں انصاف کے دو الگ معیار قابل قبول نہیں۔ اتحادی جماعتوں کے طویل اجلاس میں بھی کوئی افہام تفہیم والی بات سامنے نہیں آ سکی ہے ، حکومت اور اتحادی جماعتیں بضد ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی جماعت کو کالعدم قرار دیں اور اس کے سربراہ عمران خان کو نااہل کرتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالیں جوکہ فسطایت کی ایک اعلیٰ مثال ہوگی، کسی جمہوری ملک میں حکومت کی جانب سے اس طرح کی فسطائی سوچ کبھی بھی معاشرے کی تعمیر میں مثبت کردار ثابت نہیں ہوسکتی ہے ، اس وقت حکومت کو چاہئے کہ موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے تمام جماعتوں، سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے ، الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے تمام جماعتوں کے خدشات کو سنا جائے اور دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں جمہوری ماحول کو پروان چڑھایا جا سکے جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنے پیغام میں یہ واضح طور پر کہا ہے کہ وہ فوج اور پاکستان کی عزت کرتے ہیں، حکومت سے الیکشن کے ایجنڈے پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، اب اگر حکومت نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور انتشار، میں نہ مانوں، اور سبق سکھانے کی روایات کو اپنایا تو پاکستان کسی بڑے سانحے سے دوچار ہو سکتا ہے ۔
٭٭٭