بہتان تراشی اور جھوٹے دعویدار وقتی طور پر تو کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن اسیے ہتھکنڈوں سے حاصل شدہ کامیابی پائیدار نہیں ہوسکتی ہے۔سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں لیکن اسکا بڑا نقصان یہ ہے کہ اگر یہ کسی غلط ہاتھ میں چلا جائے تو کئی انسانوں، گھرنوں اور ملکوں کو بھی کھوکھلا کرسکتا ہے۔ جب تک اس غلط استعمال(Misuse)پر پوری طرح قانونی گرفت مضبوط نہیں ہوتی ہے عملی کافی تباہی مچا سکتا ہے اس عمل کی تشبیہ محلے کے پرانے وقتوں میں اس خاتون کے ساتھ کی جاسکتی ہے جسے”بی جمالو” کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ اس خاتون کا کام تھا کہ غلط باتیں اور جھوٹی باتیں محلہ میں زبان عام کرنا اکثر وہ یہ کام کسی بغض، عناد یا مالی مفاد کیلئے کیا کرتیں تھیں۔ اگر کسی خاتون نے ان کی مٹھی گرم کردی تو وہ محلے کی کسی اور خاتون کے خلاف بے بنیاد باتیں پھلا دیتیں ہیں۔ لیکن جب ایسی بے بنیاد اور لغو باتیں پورے محلہ میں پھیل جاتیں تھیں تو پھر محلہ کے سمجھدار لوگ اس بات کے پیچھے لگ کر اپنے طور پر جانچ کرکے پتہ لگا لیتے تھے کہ یہ”بی جمالو” کا کیا دھرا ہے۔ اور پہلی سزا تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ پر ہی ختم ہوتی تھی لیکن اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے تو انہیں محلے سے نکال دیا جاتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ سچ کی طاقت اتنی ہے کہ وہ جھوٹ کے بغیر ٹکنے نہیں دیتا اور اسے بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے۔ پرانے ادوار میں جھوٹ کا بھانڈہ زرا دیر سے پھوٹتا تھا آج کے جدید دور میں جب پوری دنیا کو ایک ”عالمی گائوں” قرار دیا جاتا ہے مواصلاتی نظام کی رفتار اتنی تیز ہوچکی ہے کہ خبریں چھُپتی نہیں چھپتی ہیں۔کسی شاعر نے کتنا سچ کہا ہے بلکہ خوب کہا ہے:
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
جعلی اشیا بیچنے والے دکاندار کی دکان زیادہ وقت نہیں چلتی، وقتی طور پر وہ منافعہ کما لیتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اسکی حرکت کی خبر عام ہوتی ہے گاہکوں میں کمی ہونا شروع ہوتی ہے اب یہ ریاکاری سیاست میں بھی سرائیت کر چکی ہے کچھ سیاستدان یہ سوچ کر جھوٹ کی دکان سجائے بیٹھے ہیں کہ لوگ بیوقوف ہیں اور پریشان ہیں انہیں بڑی بڑی باتیں کرکے انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا لیں گے جب تک انہیں اس بات کا احساس ہوگا ہم پتلی گلی سے نکل جائیں گے۔ اس لئے انہوں نے دوسرے ممالک سے لوگ منگوائے ہیں تاکہ انہیں اس کی نہ ہو کہ ہمارے جھوٹ کا بھانڈا پھٹے گا تو اپنے محلے یا شہر میں کیسے رہ سکیں گے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں یہ راستہ دکھانے والے بھی اہم ادارے کے ذمہ داران ہیں۔ لیکن اب اس جھوٹ کے ہاتھ انکے اپنے گریبانوں تک پہنچ گئے ہیں۔ کل کچھ اہم لوگوں سے بات ہوئی تو وہ اسرار کرنے لگے کہ بھائی”خان” اس وقت مقبولیت کے معراج پر پہنچا ہوا ہے اسے کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔ ہم نے یاد دلایا کہ ہٹلر بھی اپنے عروج پر اتنا ہی مقبول تھا مسولینی کی مقبولیت بھی کم نہیں تھی جسے اسی کے حمایتوں نے اپنی اہلیہ سمیت چوک پر گولی مار کر سرعام پھانسی پر چڑھا دیا۔جو عوام آپکو اپنے کندھے پر چڑھا سکتی ہے وہ آپکو پھانسی کے پھندے پر بھی چڑھا سکتی ہے۔جو سیاسی رہنما بندوق کے زور سے برسراقتدار آتا ہے اسکا خاتمہ بھی بندوق کے ذریعے ہی ہوتا ہے جیسے انگریزی میں کہتے ہیںHE WHO COMES TO POWER WITH POWER OF SWORD ALSO GOES WITH ITالیکشن کمیشن کہ ممنوعہ فنڈنگ کے مقدمہ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو دھچکا تو لگ چکا تھا لیکن رہی سہی کثر جماعتی ٹرولرز کے سانحہ لسبیلہ کے سلسلے میں افواہ سازی کی تحقیقات کے آغاز کے بعد ٹھنڈے پیسنے چھوٹنا شروع ہوئے ہیں۔ آج پشاور کے کور کمانڈر کے بہاولپور کور میں تبادلہ کی خبر بھی اس بات کی غماری ہے کہ تحریک انصاف کے برے دنوں کا آغاز ہوچکا ہے۔
ادھر عالمی مالیاتی فنڈ(IMF)کی طرف سے موافق اشارے ملنے اور ڈالر اور گیس کی قیمتوں کی کمی نہ بھی اتحادی حکومت کیلئے حالات کو بہتری کی طرف لے جانے لگی ہے۔ سیلاب نے ویسے تو تمام پاکستان کو جھنجھوڑا ہے لیکن بلوچستان کے علاقہ اوتھل اور لسبیلہ کے حالات نہایت خراب ہیں اور وہاں کے رہنے والے(جن کی اکثریت سندھی بولنے والے لوگوں پر مشتمل سے( کے حالات نہایت افسوسناک ہیں اور انکو فوری مدد کی ضرورت ہے حکومت فراہم کرنے میں ناکام سے مخیر حضرات سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر اس کار خیر میں حصہ ڈالیں۔
٭٭٭٭٭