اللہ کا ڈر پیدا کرنے کا ایک اہم سبب عقیدہ آخرت ہے ،ہر فرد کواگلے جہان میں اچھے عمل کا اچھا اور برے عمل کا برا بدلہ ملے گا، تقویٰ کے ایک معنی ڈرنے کے او رخوف کے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرواور خوف وخشیت اختیا رکرو،کسی حالت میں بے فکر ہوکر مت بیٹھو ،خواہ دولت مند ہو،خواہ مفلس ہوہرحالت میں اللہ تعالیٰ کاڈرانسان کورہناچاہئے۔تقویٰ کسے کہتے ہیں؟یہی سوال حضرت ابی کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورنبی کریم ۖسے پوچھا کہ یارسول ۖتقویٰ (اللہ تعالیٰ کاڈر)کسے کہتے ہیں؟حضورنبی کریم ۖنے ارشاد فرمایاکیا تم کبھی کانٹووالے جنگل سے گزرے ہو؟عرض کی جی ہاں آپ علیہ السلام نے پوچھا!کیسے گزرتے ہو؟عرض کی !جب کانٹا دیکھتا ہوں تواپنے جسم اور کپڑوں کوبچاکرنکلتا ہوں تاکہ کپڑے نہ پھٹیں اور جسم زخمی نہ ہو۔آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا یہی تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کا ڈرہے۔کاش ہم سب کو دنیا کی حقیقت کا احساس ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کا ڈر ہمارے دل میں اگر بیٹھ جائے تو دنیا بھر کے تمام مسائل بما خبرابیاں ختم ہوجائیں، ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے ، جب ہم کوئی غلط کام کرتے ہیں ، چوری ، ڈاکہ ، فراڈ ، تکبر سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچانا، کسی کا مال ضبط کرنا ، کسی کو دوست بنا کر اس سے فراڈ کرنا ، جب ہم جانتے ہیں کہ رب دیکھ رہا ہے تو ہمیں رب سے ڈرتے ہوئے خود کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن ہم رب کو نظر انداز کرکے لوگوں کو دھوکہ دے کر اپنے آپ کو عاقل ، سمارٹ ، ذہین کا درجہ دیتے ہیں لیکن پھرہمارا رب رسی کھینچتا ہے ، اُس کا عذاب کسی بھی صورت میں آ سکتا ہے ، کبھی بزنس میں نقصان یا بیماری کی صورت میں ،رب اسی دنیا میں حساب برابر کردیتا ہے ، معاملہ بہت سیدھا ہے لیکن کیونکہ ہمارا اللہ تعالیٰ پر ایمان کمزور ہو چکا ہے ، اس لیے رب کو نظر انداز کر دیتے ہیں، بالکل اسی طرح حکومتوں کے لیول پر ہوتا ہے ، اسرائیل یا ہماری سرکار امریکہ نے مسلم ممالک سے زمین یا تیل کے حاصل کرنے کیلئے فلسطین ، عراق، لیبیا ، پورے مشرق وسطیٰ پر بمباری کی ، لاکھوں معصوم شہریوں کو ہلاک و تباہ و برباد کیا ، کسی بھی یورپی یا اپنے مسلم ممالک نے ان کے حق میں آواز نہ بلند نہیں کی ، لاکھوں وہاں کے لوگ جب یورپی ممالک سمندر کے ذریعے گئے تو انہیں یورپی ممالک کے حکمرانوں نے ان مسلم پناہ گزینوں کو جیلوں میں ڈالااور کئی لوگوں کی کشتیاں ہی ڈبو دیں، غرق کر دیں، ان کا آج نام و نشان ہی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے آج ان کے ساتھ بھی وہی کیا ہے جو انھوں نے معصوم مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا جس طرح یوکرائن میں ان کے ساتھ آج ہو رہا ہے بے شک ہمیں ان کے لیے بھی خیر کی دعا کرنی چاہئے کیونکہ انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو کسی بھی رنگ و نسل یا زبان کا ہو، ان کیلئے انکی سلامتی کی دعا کرنی چاہئے ، ظلم ہو رہا ہے ،ہم سب کو ایک زبان ہو کر اس کی شدید مذمت کرنا چاہئے ، آج دنیا مسلسل تباہی کی جانب گامزن ہے کسی ایک کی ذرا سی غلطی سے دنیا میں بدترین تباہی آ سکتی ہے ، اس لیے خیر کی دعا اور سوچ رکھنا ضروری ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ نے انسان کے اندر اپنا ڈر پیدا کرنے کے لیے جہاں اپنے احسانات انعامات اور اپنی قدرت اور صفات کا تذکرہ فرمایا وہاں انسان کو اس کے برے اعمال کے برے انجام سے بھی ڈرایا۔ انسان کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا کرنے کا ایک اہم محرک عقیدہ آخرت ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عقیدہ آخرت کے تمام پہلوئوں کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ انسان کو آخرت میں یعنی موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس کے ہر عمل کا اچھا بدلہ اور برے عمل کا برا بدلہ ملے گا۔اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے کے دل سے دوسروں کا خوف نکل جاتا ہے اور وہ بہادری اور استقامت کی خوبیوں والا بن جاتا ہے چاہے بدر کی لڑائی ہو یا حنین وخندق کی۔ ہرمؤمن کا ایمان ہوتا ہے کہ تمام ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو اللہ جانتا ہے ، بندہ جانتا ہے کہ میں چھپ کر بھی گناہ نہیں کرسکتا اب مومن کو تقویٰ اور پرہیز گاری اسی ایمان لانے کی بدولت نصیب ہوئی۔ معاشرہ اسی وقت صحیح معنوں میں انسانی معاشرہ بن سکتا ہے جب لوگوں کے اعمال درست ہوں’ انسان کے تمام اعمال اس کے دل کے تابع ہوتے ہیں اگر دل میں ایمان کی روشنی موجود ہوتو عمل صالح ہوگا اگر کوئی شخص زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر اس کے اعمال اچھے نہیں تو یہی سمجھا جائے گا کہ ایمان اس کے دل کی گہرائیوں میں پوری طرح رَچانہیں۔
ہمارے ملک پاکستان کی سیاست انتہائی ہیجان کی صورت ہے ، ایک وقت تھا پہلے پاکستان کی سوچتے تھے ، پاکستان سے پیار کرتے تھے جبکہ آج لیڈر ان کو پہلے اہمیت دی جاتی ہے ، سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک پاکستان ہے تو لیڈران بھی ہیں لیکن آج پاکستان کی اہمیت کا کسی کو احساس نہیں ، صرف اپنے رہنمائوں کی اہمیت ہے ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اچھے حکمران عطا کرے ، جو پاکستان کی ترقی او ر سلامتی کے رکھوالے ہوں ناکہ صرف اپنے بارے میں سوچیں، ان کے دلوں میں اللہ کا ڈر شامل ہوجائے تاکہ وہ اپنے شہریوں کی بہتری کا سوچ سکیں ، اس سے ان کی اپنی دنیا اور آخرت بھی بہتر ہوگی۔
٭٭٭