تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے معاملات اور حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ اب میرا تو تحریک عدم اعتماد پر بھی عدم اعتماد کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ سمجھنے کے لیے یہ قطع کوئی مشکل بات نہیں، جو کہ پاکستان کی سیاست ایک ایسا تماشا ہے جس میں کسی وقت بھی کوئی بھی کھلاڑی اپنی تماشہ گری کرنے لگتا ہے۔عدم اعتماد کی تحریک شروع ہونے کے بعد سے لے کر اب تک سیاسی میدان میں ہونیوالی تبدیلی ماضی کے حریفوں کو حلیفوں میں بدلنے کا عندیہ دے رہی ہے، تو دوسری جانب حکومت کے منظور نظر، دور نظر ہوریے ہیں۔کل تک جو جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کو ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کو تنقید کا نشانہ جب کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کو عمران خان کی اے ٹی ایم مشین پکار رہے تھے، وہی سیاسی افراد آج انہیں گلے لگانے کو تیار ہیں۔
دوسری جانب وہی حکومت جو ان اتحادیوں کو ملنا تک گوارا نہیں کرتی تھی، وزیراعظم عمران خان متعدد درخواستوں کے باوجود ملاقات کیلئے وقت نہیں دیتے تھے، آج صبح و شام ان کے در کے چکر لگا رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست واقع ہمیشہ مکس اچار بن کر رہے گی، نظریات، وعدے، خیالات اور نعرے سیاسی یا ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ پاکستان کی سیاست اسی وجہ سے نئے چہروں کو میدان سیاست کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتی، یہ چہرے اور زبانیں گھوم پھر کر کسی نہ کسی صورت پھر عوام پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ اشرافیہ کا ایک گٹھ جوڑ ہے، جو سبھی ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کبھی ایک چور تو کبھی دوسرا چور بن جاتا ہے، کبھی نواز شریف، کبھی آصف علی زرداری اور کبھی عمران خان احتساب کی کمان ہاتھ میں تھام لیتا ہے مگر احتساب کے نام پر کھیلے جانے والے اس تماشے کا آج تک اختتام کسی نے نہیں دیکھا۔ اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات سے با عزت بریت تک عوامی ٹیکس کے پیسوں کو کروڑوں کا چونا لگ جانا پاکستان کے عدالتی نظام کے لیے بھی کو باعث عزت بات نہیں اگر یہ تماشہ گیروں کا یہ صرف تماشا ہی ہوتا ہے تو خدارا اب عوام کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ان کے ساتھ ظلم کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔
٭٭٭