ایک عالم نے جو علمی دنیا میں چاند کی حیثیت رکھتے تھے ایک مایۂ ناز کتاب لکھی جس میں لگ بھگ تین سو ساٹھ دلیلیں لکھیں کہ خدا ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا خدا ہے۔ ایک دن خیال آیا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کی دولت سے نوازا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے خدا کے ایک ہونے پر کتاب لکھ دی ہے میرے وہ بہن بھائی جو علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں مگر وہ خدا کے ایک ہونے پر پختہ یقین رکھتے ہیں ااخر ان کے پاس کیا دلیل ہے یہ بات پوچھنے کیلئے وہ عالم نکلا ایک گائوں کے قریب ایک زمیندار ہل چلا رہا تھا عالم نے سوال کیا اور کہا بھائی میرے پاس آئو جب وہ آگیا تو اس نے پوچھا بتائو کدا کتنے ہیں دیہاتی نے بڑے غور سے عالم کو دیکھا اور کہا آپ مجھے صحیح سلامت لگتے ہیں مگر سوال احمقانہ ہے۔ پھر دیہاتی نے نہایت ہی خوبصورت اور قیمتی جواب دیا کہنے لگا مولوی صاحب دلیل کی ضرورت ان کو ہوتی ہے جنہیں کوئی شک ہو مجھے الحمد اللہ کوئی شک ہی نہیں خدا صرف ایک ہی ہے تو دوستو، بھائیو، ایک عقلی لابی کام کر رہی ہے جو سوشل میڈیا کا سہارا لے کر لوگوں کو یہ باور کرانے کیلئے لگی ہوئی ہے کہ شب برأت کی کوئی حقیقت نہیں جاگنے اور نفل پڑھنا بدعت ہے، کچھ بھی ثابت نہیں ہے، مقصد یہی ہے کہ لوگ عبادت خداوندی سے باز آجائیں کرکٹ میچ دیکھیں، ٹی وی شوز دیکھیں اور یوں اپنی راتیں برباد کریں۔ جہاں تک فضیلت کی بات ہے تو صرف آپ کو قرآن و حدیث کی طرف جانا پڑے گا۔ جن صحابہ کے حوالے دیکر آپ کو منع کر رہے ہیں وہ تو صرف پچیس چھبیس صحابہ کے بارے ملتا ہے آخری خطبہ کے وقت تو ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم و بیش تھے باقیوں کی روایات کہاں ہیں۔ لہٰذا قرآن و حدیث ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ رسولوں کو رسولوں پر فضیلت ہے لیلة القدر کو راتوں پر فضیلت ہے لیلة البراة یا لیلة مبارکہ جسے شب برأت کہتے ہیں احادیث میں جمعة المبارک کو تمام دنوں پر فضیلت ہے تمام مساجد میں تین مسجدوں کو فضلت ہے کعبہ معظمہ میں ایک نماز لاکھ کے برابر ہے۔ مسجد نبویۖ کی پچاس ہزار کے برابر ہے مسجد اقصیٰ میں نماز پچیس ہزار کے برابر ہے۔ لیلة القدر ہزار مہینوں پر بھاری ہے سو میرے بھائیو، شب برأت معافی مانگنے کی رات ہے اور مسجد سے بہتر کون سی جگہ ہے اگر کوئی نفلوں کی جماعت کرا رہا ہو تو شامل ہو جائیں سرکار دو عالمۖ کی سنت سے ثابت ہے امام بخاری نے باب تہجد میں نفلوں کی جماعت پر باقاعدہ ایک باب باندھا ہے۔
٭٭٭