آہ، مخدوم خلیق الزماں(گُل سائیں!)

0
142
پیر مکرم الحق

ھالا کے نواح میں نولکھی گودڑی درویشوں کے درویش مخدوم نوح کے خانوادے کے لیے چشم وچراغ قبلہ مخدوم طالب المولا کے دوسرے فرزند اور مخدوم امین فہیم سائیں کے چھوٹے بھائی مخدوم خلیق الزماں ایک تاریخ ساز شخصیت تھے جنہیں بچپن ہی سے اپنے والد صاحب کا بے پناہ لاڈوپیار نصیب ہوا ،بڑے مخدوم صاحب انہیں پیار سے گل(پھول) سائیں پکارتے تھے ،بچپن سے بڑے شوخ اور دل پھینک تو تھے لیکن سیاست میں پیر رکھتے ہی انہوں نے روایتی پیرومرشد کے برعکس اپنے آپ کو سیاست میں بہادر وسرفروش بھی ثابت کر دکھایا۔نازک مزاج والد، رشتہ دار اور مریدین کا ڈھیر سارا پیار اور توجہ پانے کے باوجود سیاست میں انکی ثابت قدمی اور ڈٹ جانے والی ادا نے تمام لوگوں کو حیران کردیا۔محترمہ بینظیر جب اپنے والد کو دی جانے والی موت کی سزا کے خلاف اپیل اور قانونی جدوجہد کیلئے پاکستان میں آئیں تھیں تو1979ء میں انکی آخری ملاقات اپنے والد سے کرائی گئی ،دوسرے دن4اپریل1979ء انکے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔محترم بینظیر بھٹو اور انکی والدہ بیگم نصرت بھٹو کو سہالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند کیا گیا۔صدمہ سے دوچار ماں اور بیٹی نے فوراً سیاسی جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ایم آر ڈی(تحریک بحالی جمہوریت کا آغاز کیا گیا۔اس موقعہ پر مخدوم خلیق الزماں کو پی پی پی سندھ کا صدر مقرر کیا گیا۔مخدوم خاندان کو ضیاء الحق نے کوشش کی کہ کسی طرح انہیں پی پی پی سے جدا کر لیا جائے لیکن مخدوم خاندان ڈٹ گیا اور انہوں نے ایم آر ڈی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ایم آر ڈی کی تحریک میں سب سے زیادہ گرفتاریاں ھالا کے مقام سے دی جانے لگیں اور ایک وقت میں ھالا کے مقام پر نیشنل ہائی وے پر سے پچاس ہزار لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوا اور ہائی وے جام کر دیا گیا۔مخدوم صاحبان کی سروری تنظیم کے ہزاروں کارکنان نے سر سے کفن باندھ کر اپنی سرفروش کا اعلان کیا۔ھالا کی حد تک اس کارواں کے روح رواں مخدوم خلیق الزماں تھے ان کی دھواں دھار تقاریر میں پورے صوبہ سندھ میں ایک جوش وجذبہ پیدا کر دیا تھا اور پھر سندھ کے جیل بھرنے شروع ہوگئے تھے۔راقم خود بھی حیدرآباد سینٹرل جل میں اٹھارہ سو قیدیوں کے ساتھ مقید تھا۔مخدوم خلیق الزماں، پیر مظہرالحق، ایاز سومرو، فاضل راہو، میر اعجاز، اور مجتبیٰ جتوئی(مجن خان)ان قائدین کو گرفتار کرکے مچھ جیل بلوچستان بھیج دیا گیا۔اس زمانے میں مچھ جیل کو کالے پانی کا جیل تصور کیا جاتا تھا سہولتوں کا فقدان تھا۔سائیں طالب المولیٰ(قبلہ سائیں)کو جب مچھ جیل کے حالات کا معلوم ہوا تو بہت پریشان رہنے لگے کہ انکا تازونعم سے پلا ہوا بیٹا پاکستان کے اس سخت جیل میں نظر بند تھے۔انہوں نے گل سائیں کے بچھڑ کر دور چلے جانے پر شاعری بھی کی تھی کہ انکا محبوب فرزند مشکلوں میں پھنس کر پریشان ہو رہا ہوگا۔مفہوم رہنے لگے تھے لیکن مخدوم خلیق الزماں نے انہیں پیغام بھیجا کہ میں خوش ہوں میری فکر نہ کریں اور ضیاء غاضب سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا ہے جدوجہد کو جاری رکھیں ہم اس زمانے میں پانچ پیر(راقم اور انکے بھائی)حیدرآباد جیل میں اٹھارہ سو قیدیوں کے ساتھ تھے۔خلیق سائیں کے اپنے والد کو بھیجے جانے والے پیغام نے سارے جیل بلکہ تمام سندھ میں ایک جذبہ اور جوش کی لہر دوڑا دی نعروں کی گونج سے سارے زنداں لرز اٹھے۔آمر ضیا بھی لرز گیا تھا پھر کوڑے کمزور اور ناتواں کمروں پر برسنے لگے ہر کوڑے کے جواب میں نعرہ لگتا”جئے بھٹو” اور پھر پورا جیل نعرہ لگاتا”جئے بھٹو”ان گنگار آنکھوں نے دیکھا معذور سیاسی کارکن جس ہمت اور بہادری سے جیل کاٹ رہے تھے وہ حیران کن منظر تھا اور وہ ایک لمحہ وہ وقت جسکا ہیرو مخدوم خلیق تھا۔وہ تمام جدوجہد کرنے والوں کاچی گویرا بن گیا تھا۔80ء کی دہائی کے آخری سال میں پھر راقم کی ملاقات مخدوم خلیق الزماں سے اسلام آباد میں ہوئی اور پھر بڑھتے بڑھتے دوستی ہوگئی۔وہ ایک نہایت نفیس اور محبت کرنے والے انسان تھے۔پھر ہم دونوں نے ملکر بے وفا شہر کے پہاڑوں کی دھول چھائونی بڑی بڑی چوٹیاں سر کیں اور جب پہاڑ کی آخری چوٹی پر پہنچ کر تھک کہ چور ہو جاتے تو وہ اپنے ماضی کے قصے کھولتے اور ہم ایک دوسرے کے دکھ بانٹ لیتے تھے۔ان سالوں کی قربت نے مخدوم خلیق الزماں کا ایک انوکھا روپ اور ان سے صحیح شناسائی کرائی۔بظاہر فیصلے اور خاموش خلیق نہایت شرمیلے اور رومانوی مزاج رکھتے تھے کبھی کبھی جلد غصہ بھی ہوجاتے تھے۔لیکن منانے پر درگزر بھی کردیتے تھے۔دل میں میل نہیں رکھتے تھے پھر درمیان میں ہم وطن بدر رہے اور کئی سال تک رابطہ نہیں ہوا جب دوبارہ ملے تو انکی شخصیت میں اداسی نمایاں تھی کچھ تو اپنے پیارے ہائی مخدوم شفیق الزماں کی ناگہانی موت نے انہیں بکھیر کر رکھ دیا۔سیاست جو کبھی انکا اوڑھنا بچھو نا تھی اس سے بھی کنارہ کش ہوگئے تھے ایک بات کہنے میں کوئی عار نہیں نہایت ذہین اور محنتی انسان تھے۔بہت Focusedفوکسڈ تھے لیکن حالات اور واقعات نے ایسا کیا کہ اتنا کام کا شخص ضائع کر دیا گیا یا ہوگیا سندھ اور پاکستان کے لوگوں کو مخدوم خلیق الزماں کبھی بھولیں گے نہیں اور جو بھی انہیں ایک مرتبہ بھی ملا وہ انہیں ہمیشہ یاد کریگا۔اللہ پاک مغفرت فرمائے(آمین)۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here