نیویارک(پاکستان نیوز) نو منتخب صدر جو بائیڈن کی جانب سے وائٹ ہاو¿س کے ایک اہم عہدے پر فلسطینی امریکی کی تقرری سے اسرائیل میں سیاسی تنازع بھڑک اٹھا۔ عرب نیوز کے مطابق جو بائیڈن نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ ریما ڈوڈن قانون سازی امور سے متعلق ان کی دو رکنی ٹیم میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گی۔ یہ ٹیم صدر بائیڈن کی پالیسیوں کے تعین میں مدد کرے گی۔ اس ٹیم کی دوسری رکن شوانزا گوف ہیں جو افریقی امریکی ہیں۔ ریما ڈوڈون کا تعلق کیلیفورنیا سے ہے اور وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، بارکلے اور یونیورسٹی آف ایلنوائس سے فارغ التحصیل ہیں۔ جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو منسوخ کر دیں گے اور عرب امریکیوں کے حقوق کو تسلیم کریں گے۔ بائیڈن کے وائٹ ہاو¿س چیف آف سٹاف رون کلین نے بتایا ہے کہ منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کامیلا ہیرس جرا¿ت مندانہ ایجنڈہ رکھتے ہیں جو ہماری قوم کی تعمیر کرے گا اور اسے پہلے سے بہتر ترقی دے گا۔ ہماری ٹیم اس ایجنڈے کے نفاد کے لئے صدر اور نائب صدر کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور امریکی خاندانوں کے لئے نتائج بھی سامنے لائے گی۔ اسرائیل نواز گروپوں اور تنظیموں نے ریما ڈوڈن کی تقرری پر تنقید کی ہے اور ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خود کش بم حملوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ اس الزام کو تقویت دینے کے لئے ریما ڈوڈن کی جانب سے ماضی میں دیئے گئے ایک بیان کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں سرکاری عہدے پر مقرر کئے جانے والے فلسطینیوں کے بارے میں عموماً اسی قسم کی تنقید کی جاتی ہے اور ایسی کسی بھی تقرری کو فلسطینی حقوق کی حمایت سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے ریما کے2002 میں دیئے گئے مبینہ بیان کو شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کیلیفورنیا میں ایک اجتماع میں کہا تھا کہ خود کش دھماکے، مایوسی کا شکار لوگوں کا آخری حربہ ہوتے ہیں۔ ریما کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے فلسطینیوں کی اراضی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف نکالی گئی”بی ڈی ایس‘ یعنی ”بائیکاٹ، انحطاط اور پابندی“ کے زیر عنوان احتجاجی ریلی میں بھی شرکت کی تھی۔