کربِ کشمیر: نال دلگیر!!!

0
70
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

سید رضوان حیدر رضوان کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ آپ احیائے ادب حویلی آزاد کشمیر کے سرپرست ہیں۔ بنیادی طور پر آپ نعت گو اور عاشقِ رسولۖ ہیں۔ آپ کی تاحال نظم و غزل، حمد و نعت و مناقب و مناجات کی چار کتب مضرابِ آرزو، ضیائے طیبہ، کرم حضور کااور عطائے محمد شائع ہو چکی ہیں جو مقبولِ عام ہیں۔ دو کتب کربِ کشمیر اور دلِ حزیں زیرِطبع ہیں۔ آپ کی نعتیہ شاعری پر میں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے ایک طالبہ نے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ آپ کے کلام میں پختگی، برجستگی، روانی، گہرائی اور گیرائی ہے- آپ کو زبان و بیان پر عبور حاصل ہے۔ غزلیات میں کلاسیکل رنگ و آہنگ کی چاشنی کا نور اور نعتوں میں حدتِ شعل طور نمایاں ہے۔ آپ کی شاعری میں مقصد سے خلوص اور جذب صادق جلوہ گر ہیں۔ آپ ایک انقلابی اور روحانی شخصیت ہیں، باوقار اور وضع دار اطوار کی تصویر اور نوائے دلِ کشمیر ہیں۔
آپ کی زیرِ طبع کتاب کربِ کشمیرآپ کے دل کی وہ فغاں ہے جو ہر کشمیری کے دل کی آہِ سوزناک ہے۔ بقولِ علامہ اقبال!
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
سین افلاک سے اٹھتی ہے آہِ سوز ناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطان و امیر
یہی وہ علامہ اقبال کی آہِ سوز ناک ہے جو سید رضوان حیدر رضوان کے دلِ بریاں اور چشمِ گریاں کی داستانِ الم ناک ہے۔ آرادی کشمیریوں کا حق ہے جسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے۔ کشمیریوں پر بھارتی افواج نے انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں اور ان کی آواز کو دبانے کے لئے کشمیری حریت پسندوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دئیے ہیں، ضمیرِ عالم جھنجھوڑنے کے لئے شمشیر کے ساتھ برش نوکِ قلم کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ دنیا بھر کے اہلِ قلم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ہے کہ وہ کشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز بلند کریں -یہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کی جائے۔
سید رضوان حیدر رضوان کی کشمیر کے بارے میں نظمیں نہ صرف دنیائے ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں بلکہ یہ انقلابی اور انسانی اقدار کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ آپ کتنے کرب سے کہتے ہیں!
اجاڑے ہیں گل و گلزار میرے
عدو ہیں کچھ پسِ دیوار میرے
میں اپنے گھر سے بے گھر ہو گیا ہوں
ڈراتے ہیں در و دیوار میرے
میری نظر سے اِن کر کشمیر پر ارسال کردہ منظومات گزری ہیں، ہر نظم داستانِ کرب ہے جو بھی نظم پڑھی ضمیر نے آواز دی کہ کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا این جاست۔ جب تک چراغِ امید ضوفشاں ہے اور کشمکشِ دہر رواں دواں ہے آوازِ حق و حریت بلند ہوتی رہے گی اور کشمیر کی آزادی کا سورج آب و تاب سے طلوع ہوگا۔ سید رضوان حیدر رضوان کی کربِ کشمیر شبِ تیرہ و تار میں جلتی رہے گی جب تک کہ بھارتی جبر و استبداد کی تیرگی کافور نہ ہو جائے اور آزادء کشمیر کا سورج طلوعِ نہ ہو-
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here