خدا کا واسطہ باز آجائو!!!

0
167
جاوید رانا

انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بے شک ہر ذی نفس جو کرّہ ارض پر آیا ہے، اسے رب جلیل کے پاس واپس جانا ہے۔ ہر ایک کا وقت متعین ہے نہ ایک لمحہ بڑھ سکتا ہے نہ کم ہو سکتا ہے۔ سوموار کو پشاور کی پولیس لائن کی مسجد میں جو لرزہ خیز سانحہ عین نماز ظہر کے وقت ہوا ہے اس میں جو شہید ہوئے، مضروب ہوئے اس کی تفصیل سے آپ میڈیا کے توسط سے یقیناً آگاہ ہو چکے ہیں۔ ہم بھی اس کے اعداد و شمار میں جانا نہیں چاہتے کہ یہ کوئی کرکٹ میچ یا دوسرا کھیل نہیں بلکہ سینکڑوں زندگیوں کے خاتمے و معذوریت کا دردناک سانحہ تھا۔ ویسا ہی سانحہ جیسا APS میں ہوا تھا اور جس نے ساری قوم کو درد و غم کے حوالے سے مجتمع کر دیا تھا اور دشمن قوتوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے یکجان کر دیا تھا۔ APS اور اب پولیس لائنز کے سانحات پر بہت سے پہلو قدر مشترک نظر آتے ہیں مثلاً سیکیورٹی کے حوالے سے دونوں جگہیں نہایت اہمیت کی حامل، دونوں جگہ دہشتگردی کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے لی APS میں وطن کے مستقبل پھول سے بچوں، بہادر پرنسپل و اساتذہ اور قوم کے محافظوں نے شہادت کا درجہ حاصل کیا تو سوموار کو صوبے کے امن و امان و تحفظ کے ذمہ داروں اور ان کے افراد خاندان و شہریوں نے شہادت اور مضروبیت پائی۔ APS کے سانحہ کے وقت بھی سیاسی منظر نامہ غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار تھا اور پولیس لائن کی مسجد میں دہشتگردی کے وقت بھی سیاسی و معاشی صورتحال نہایت دیگرگُوںاور مایوسی کی عکاس ہے، البتہ فرق یہ ہے کہ اُس وقت عمران خان نے اپنا احتجاجی دھرنا ختم کر دیا تھا اور تمام سیاسی و ریاستی قوتیں دشمنوں کیخلاف ہر اختلاف کو بُھلا کر متحد ہو گئی تھیں، اس کے برعکس حالیہ سانحہ کو ابھی چند گھنٹے بھی نہیں گُزرے تھے کہ سیاسی رقیبوں نے اس تناظر میں سیاسی رنگ ڈھنگ خصوصاً ضمنی انتخاب کے انعقاد پر ایک دوسرے پر زہر افشانی شروع کر دی اور ریٹنگ کے بھوکے اور اپنے سیاسی وفاداری رحجان رکھنے والے میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہ رویہ اور طرز دشمنی کسی بھی مذہب، انسانی روئیے، حب الوطنی اور اخلاق سے ماوراء ہی ہے اور کسی کے مفاد میں نہیں ہو سکتا بلکہ ملک و قوم سے بیگانگی و خود غرضی کی بدترین مثال ہے۔ یاد رہے کہ APS کے سانحہ کے بعد ساری قوم اور سیاسی و ریاستی اتحاد کے بعد دہشتگردی کا قلع قمع کر دیا گیا تھا لیکن حالیہ سیاسی و معاشی عدم استحکام کی صورتحال میں دہشتگردی کا جن دوبارہ داخلی و بیرونی دشمنوں اور سہولتکاروں کی سرپرستی سے بوتل سے باہر آچکا ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے دہشتگردانہ وارداتوں کا ایک سلسلہ ہے جو تھمنے میں نہیں آرہا ہے۔ دہشتگردوں نے کے پی، بلوچستان سمیت اسلام آباد تک کسی صوبے، شہر علاقے کو نہیں بخشا ہے، ان کا ہدف ہماری افواج، لاء اینڈ آرڈر و سیکیورٹی کے افراد و اسٹیبلش منٹس ہیں اور قوم کے بیٹوں اور شہریوں کو حملوں، خود کش وارداتوں کے ذریعہ ہدف بنانا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ حالات وطن عزیز کیلئے کسی طور بہتر نہیں۔ بات محض ٹی ایل پی یا دیگر دشمن قوتوں کی پاکستان دشمنی تک ہی محدود نہیں، گھر کے سیاسی چراغ بھی باہمی رقابت اور انتقامی رویوں و اقدامات سے گھر کو آگ لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ حکومتی و انتظامی بد اعمالیوں، عوام مخالف سیاسی فیصلوں اقدامات سے ایک جانب لوگوں کی کمر ٹُوٹ گئی ہے تو دوسری طرف حکمرانوں کے سیاسی تماشیوں میں لاء اینڈ آرڈر سے عدم توجہی سے ڈاکو لٹیرے اور جرائم پیشہ بے لگام ہو چکے ہیں، اغواء تاوان، ڈکیتی کے ساتھ بد انتظامی و لاپرواہی کی بدولت حادثات انسانی جانوں کے ضیاع و عدم تحفظ کا معمول ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے میں حب میں بس کے حادثے اور کے پی میں کشتی میں انسانی جانوں کا ضیاع حکومتی و انتظامی لاپرواہی، عدم دلچسپی اور ناکامی کی بدترین مثال ہے، یہی عالم محض وفاق کی سطح تک نہیں بلکہ صوبہ، ڈویژن، ضلع حتیٰ کہ شہرو محلہ تک ہے۔ مرے پر سو دُرے کے مصداق عوام پر مہنگائی کا بوجھ، معیشت کی بدحالی آئی ایم ایف کے دبائو پر ڈالرز کی بے تحاشہ پرواز، سبسڈیز کے خاتمے سے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ، بجلی و گیس کے بڑھتے ہوئے ٹیرف، زر مبادلہ میں بدترین زوال و کاروبار کا تنزل واضح طور پر ایک ناکام و بے بس حکومت کا آئینہ ہے۔
افسوس یہ ہے کہ ان بد ترین حالات کو ٹھیک کرنے کے اقدامات کے برعکس سیاسی اشرافیہ کا کردار کسی بھی طرح واضح نہیں خصوصاً برسراقتدار اکٹھ حالات کے سیاسی و انتظامی سدھار کی جگہ انتقامی کارروائیوں، ملک کی سب سے بڑی جماعت کیخلاف منفی ہتھکنڈوں، مقدمات، عوام کی رائے سے روگردانی اور انتخابات سے پہلو تہی پر عمل پیرا ہیں۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ اور آئینی و منصفی کے کرتا دھرتا بھی حالات سے اغماض پر ہی کاربند ہیں۔ ایک جانب حکومتی ارباب مخالفین کو دبانے کیلئے مقدموں، گرفتاریوں ودیگر منفی اقدامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں تو دوسری جانب اپنے سیاسی قد کوبڑھانے کیلئے ہر حربہ آزما رہے ہیں۔ فواد چوہدری کی گرفتاری، شیخ رشید کی لال حویلی کو سیل کرنے اور پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری کے بعد ضمنی انتخاب کا اعلان کی تفصیل سے تو قارئین بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں لیکن پنجاب و کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے انتخابات کرانے کیلئے حکومتی سائیڈ کے منہ میں گھونگے بھر گئے ہیں۔ ن لیگ اپنے اندر تقسیم اور عوامی حمایت کھونے کے باعث مریم نواز کو راہنمائی کا راستہ بنانے کی جدوجہد میں ہے۔ ہفتہ کو لاہور آمد پر اسے تاج پہنایا گیا اور زبردستی استقبال میں لانیو الوں سے ایک فرد نے چینل پر واشگاف الفاظ میں حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ماموں کے کہنے پر آیا ہے، اس کا ووٹ تو عمران خان کا ہے، یہ بھی سننے میں آیا کہ حکمرانوں کے سر پر تاج عوام روٹی کیلئے محتاج۔
ہماری عرض یہ ہے کہ ابتری و زوال کی یہ صورتحال آخر کب تک، ایسا نہ ہو کہ حالات اس حد تک پہنچ جائیں جہاں ملکی سلامتی خدانخواستہ دائو پر لگ جائے اور عوام تنگ آکر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کا احتساب کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ بھوک، مایوسی، دہشتگردی اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا حل عمران خان یا مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے ہر گز ممکن نہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ آئینی، سیاسی، قانونی و دیگر مقتدرین و ذمہ داران باہم کردار ادا کریں اور وطن و عوام کے مفاد و تحفظ اور بہتری کا مثبت فیصلہ اور اقدام کریں۔
وحدت قوم کی کوئی نہیں تدبیر الگ
اک کڑی ٹوٹے تو ہو جاتی ہے زنجیر الگ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here