اس دور میں اہم شخصیات کی خبروں سے متعلق تصاویر صرف اخبارات میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ یہ شاید 1963 کی بات ہے، یادش بخیر مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کی ایک ایسی تصویر اخبارات میں چھپی تھی جس میں انہیں دل کا عارضہ ہوا تھا اور وہ لاہور کے میو ہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈ میں ایک بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ پہلی دفعہ نواب آف کالا باغ کو اپنی لمبے طرے والی پگڑی کے بغیر، ایک بستر پر نڈھال لیٹے ہوئے دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ لیکن اس حیرت سے ہزار گنا بڑی حیرت آج ساٹھ سال کے بعد سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اس تصویر کو دیکھ کر ہوئی، جس میں وہ ہرنیا کے آپریشن کے بعد امریکہ کے ایک ہسپتال میں ویسے ہی بستر پر لیٹے ہوئے ہیں۔ دونوں تصاویر ہماری ساٹھ سالہ تاریخ کے زوال کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ دل کا مرض ساٹھ سال پہلے بھی موجودہ دور کی طرح طبی دنیا کا پیچیدہ اور نازک مرض ہی تصور ہوتا تھا جبکہ ہرنیا اس دور میں بھی آسان ترین امراض میں گِنا جاتا تھا۔ یہاں معاملہ ان دونوں امراض کے تقابل کا نہیں ہے، بلکہ معاملہ اس قومی مرض کا ہے جو ہمارے حکمرانوں میں بدترین کینسر کی طرح سرایت کر چکا ہے۔ یہ تکبر، دکھاوے، اور عام آدمی کو مرعوب کرنے کی بیماری ہے جس نے میرے پیارے پاکستان کو دو واضح نظر آنے والے جزیروں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک بہت ہی چھوٹا سا جزیرہ ہے، جس میں اس ملک کی اشرافیہ یعنی سیاست دان، جرنیل، جج، بیوروکریٹ، تاجر اور اب تو میڈیا انڈسٹری کے کچھ اہم چہرے بھی رہتے ہیں، جبکہ دوسرے جزیرے پر بائیس کروڑ عوام کا بسیرا ہے۔ ان دونوں جزیروں کے درمیان طاقت و قوت کا سمندر کھولتے ہوئے پانی کی طرح پھنکارتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے دست و گریبان نہیں ہونے دیتا۔ ایک زمانے میں صرف قبرستانوں میں کچھ مخصوص خاندانوں کے احاطے ہوا کرتے تھے، اس میں بھی امیروغریب کی تفریق نہیں ہوتی تھی، بس مرنے والے کا تعلق اس مخصوص برادری سے ہونا چاہئے تھا، لیکن شہروں کی آبادیاں ہمیشہ سے مشترک تھیں۔ آپ لاہور کے اندرون شہر یا کسی بھی شہر کی قدیم آبادی کو دیکھیں تو آپ کو ایک ہی محلے میں بہت بڑی حویلی بھی ملے گی اور متوسط طبقے کے مکانات کے ساتھ ساتھ غربا کے چھوٹے چھوٹے گھر بھی نظر آئیں گے۔ بجلی جاتی، پانی بند ہوتا، محلے میں صفائی نہ ہوتی تو یہ تمام مسائل امیروغریب سب کے لئے مشترکہ ہوتے۔ انگریز نے اپنے وفادار حکومتی کارندوں کی کالونیاں علیحدہ بنائی تھیں اور ان میں بھی آپس میں تفریق رکھی تھی۔ ضلع کے اعلی افسران کے ایکڑوں پر پھیلے ہوئے گھر تھے جبکہ سٹاف کے لئے بابو محلے الگ بنائے گئے تھے۔ اس رہائشی تقسیم کے باوجود بھی انگریز نے عوام اور اشرافیہ کے تعلیمی ادارے علیحدہ کئے تھے اور نہ ہی ہسپتال۔ سب لوگ ایک ہی بازار سے ضروریاتِ زندگی کی اشیا خریدتے تھے۔ کنٹونمنٹ انگریز نے اس لئے آباد کئے تھے کہ ان میں افواج کے افسران اور عام فوجی عارضی طور پر قیام پذیر ہوں تاکہ وہ وطن کے دفاع کا فریضہ یکسوئی سے سرانجام دے سکیں۔ افواج کو عام لوگوں سے الگ رکھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ انہیں صرف اور صرف دفاع کے لئے مخصوص رکھا جائے۔ آہستہ آہستہ وہاں افواج کے اعلی افسران کو مستقل پلاٹ الاٹ ہوئے اور پھر گھر بھی ملنے لگے۔ اس کے بعد ملک کے صاحبانِ حیثیت افراد کو بھی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ کنٹونمنٹ ایک ایسا علاقہ، جس کے چاروں طرف باادب، باملاحظہ، ہوشیار کہتے ہوئے باوردی پہرے دار ہوتے ہیں، ایسا کسے اچھا نہیں لگتا۔ آج بھی آپ کو سیاسی اشرافیہ کے پرانے گھر کنٹونمنٹ میں ہی ملیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سول لائنز کے نام سے عام آدمیوں سے علیحدہ ایک اور علاقہ آباد کیا گیا جو زیادہ تر امرا کے لئے مختص تھا۔ سرمائے کی ریل پیل شروع ہوئی تو گلبرگ لاہور اور ڈیفنس کراچی جیسی آبادیاں وجود میں آئیں جہاں ایکڑوں پر پھیلی ہوئی رہائش گاہیں تھیں۔ مگر آج تو ہر شہر اور قصبے میں آپ کو ایسی لاتعداد آبادیاں نظر آئیں گی جن میں صرف امرا و رئوسا رہتے ہیں۔ ان کے بازار الگ ہیں، تفریح گاہیں مختلف ہیں، سکول، ہسپتال علیحدہ ہیں۔ بڑے بڑے آہنی دروازے ہیں جن میں عام انسان صرف مزدوری کرنے کے لئے ہی داخل ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کا کوئی غریب پڑوسی ہے اور نہ ہی اس کے حقوق کی کسی پر ذمہ داری۔ دونوں علاقے علیحدہ دکھائی بھی دیتے ہیں اور سہولیات کے حوالے سے بھی مختلف ہیں۔ ایک جانب غریب تعفن زدہ بستیاں ہیں جن میں سیوریج نہ پانی و بجلی اور دوسری طرف زندگی جگمگاتی جاگتی ہے۔ رہائش گاہوں کے حساب سے ایسی تقسیم آپ کو دنیا کے کسی ترقی یافتہ ممالک میں بھی نظر نہیں آئے گی۔ وہاں اگر بڑے بڑے محل ہیں تو وہ چند ایک ہی ہیں مگر عام بستیوں سے بہت دور جبکہ عام شہری آبادی میں امیروغریب یکساں رہ رہے ہوتے ہیں۔ علاقے اور رہائش گاہیں تو ہم نے الگ کر لیں لیکن سب سے بڑا ظلم جو ہم نے اس ملک پر کیا وہ یہ تھا کہ ہم نے دو بنیادی ضروریات کے اداروں میں بھی بدترین طبقاتی تقسیم پیدا کر دی۔ یہ تھے صحت اور تعلیم کے ادارے۔ غریب اور امیر افراد دونوں اپنے اپنے مکانوں میں گزارا کر لیتے ہیں، اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کپڑے پہن لیتے اور اپنی اوقات کے حساب سے کھانا کھا کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر غریب کے بیٹے اور امیر کے بیٹے کو کینسر ہو جائے تو دونوں کو ایک ہی طرح کا علاج ملنا چاہئے۔ اسی طرح اگر غریب کا بیٹا ذہین ہے تو وہ بھی امیر کے ذہین بیٹے کی طرح اعلی تعلیمی ادارے کی سہولیات کا حقدار ہے۔ جن دنوں کی ملک امیر محمد خان کی میو ہسپتال کی تصویر ہے، اس دور میں یہ تفریق ہرگز نہیں تھی۔ میں گجرات کے جس ٹاٹ والے سکول میں پڑھتا تھا، اس میں ڈپٹی کمشنر اور ممبرانِ اسمبلی کے بیٹے بھی ہمارے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ گجرات کے ایم سی پرائمری سکول کی پانچویں کلاس میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والی ایک ہی کلاس سے ہم تین لوگ سول سروس میں آئے۔ سابق فیڈرل سیکرٹری سیرت اصغر جوڑا، میں اور سابق کمشنر انکم ٹیکس جاوید رانا۔ ہمیں کسی طور پر بھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم کسی اہم اور غیر مرئی قسم کی مخلوق سے مقابلہ کرنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح شہر میں ایک ہی سول ہسپتال تھا جس میں سب علاج کروانے جایا کرتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے ان دونوں سہولیات سے فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان اتنا فاصلہ بڑھا دیا ہے کہ اب یہ دونوں الگ دنیائوں کی مخلوق لگتی ہیں۔ وہ شخص جو سرمایہ رکھتا ہے اس کے لئے پرائیویٹ ہسپتالوں کی ایک وسیع دنیا ہے جہاں سے وہ علاج کروا سکتا ہے جبکہ غریب آدمی سرکاری ہسپتال کی زبوں حال کیفیت میں اپنے پیارے کی لاش اٹھا کر لاتا ہے۔ اسی طرح صاحبانِ حیثیت افراد کے لئے دنیا کے مہنگے ترین نظامِ تعلیم کی مقامی شاخیں اور ان سے متاثر سکول سسٹم کھلے ہوئے ہیں جبکہ ایک غریب شخص کا ذہین ترین بچہ بھی ایک ایسے سکول میں پڑھنے پر مجبور ہے جس پر سرکار بھی توجہ نہیں دیتی۔ ایک دفعہ سیکرٹریز کی میٹنگ میں ایک وزیر اعلی نے سوال کیا، کہ ہم اپنی صحت اور تعلیم کی سہولیات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ صرف ایک حکم نامے سے کہ وزیر اعلی سے لے کر چھوٹے درجے کے ملازمین تک، سب کو پابند کریں کہ وہ اپنا علاج سرکاری ہسپتال سے کرائیں اور اپنے بچوں کو سرکاری سکول سے پڑھائیں۔ پھر دیکھئے گا یہ دونوں ادارے مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں انقلابی طور پر تبدیل ہو جائیں گے۔
٭٭٭