نیم حکیم بھی ماہر معاشیات بن گئے !!!

0
64
حیدر علی
حیدر علی

میرے مضمون کا عنوان ملک کی معیشت نہیں بلکہ گھوڑے گاڑی کی سواری ہے ، کیا کہا گھوڑے گاڑی کی سواری؟ جی ہاں حضور ! گھوڑے گاڑی کی سواری جسے آپ عرف و عام میں تانگا یا ٹونگا پیری کہتے ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ میں گھوڑے گاڑی کی سواری پر لکھتے ہوئے ملک کی معیشت پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کردوں جیسے کہ ہمارے محلے کے حولدار صاحب کے پاس جب بھی کوئی پرچی کٹوانے آتا ہے تو وہ اُسے ملک کی معیشت پر ایک لیکچر دے دیتے ہیں، اُن کا کہنا ہوتا ہے کہ اگر ملک کی معیشت اپنی پٹری پر چل رہی ہو تی تو نوجوانوں کو چوری یا ڈاکہ زنی کی واردات کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔اُن نوجوانوں میں حولدار صاحب کے صاحبزادے بھی شامل ہیں جو کئی مرتبہ موٹر سائیکل اور بھینس چوری کے الزام میں گرفتار ہوچکے ہیں، حولدار صاحب کا یہ انتباہ ہوتا ہے کہ اگر کسی نے اُن کے بیٹے کو پہیہ چور کہے گا تو وہ اُسے دفعہ 302 یا 420 کے تحت اندر کردینگے لیکن حولدار صاحب کا معیشت پر لیکچر بھی سیر حاصل ہوتا ہے، اُنکا کہنا ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے اتنی تباہ کہ لوگ قمیض یا شلوار خریدنے کے بجائے ڈوریوں پر پڑے کپڑوں کو چوری کر لیتے ہیں اور اکثر نمازیوں کو جمعہ کے دِن اپنے پڑوسی کی شلوار قمیض غور سے دیکھنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے ، کیونکہ اُس کا رنگ اور کٹ بالکل اُنکے شلوار قمیض جیسا ہوتا ہے،نمازی ازراہ مہربانی اپنے پڑوسی نمازی سے اتنا پوچھ لیتا ہے کہ کہاں سے خرید ا ہے؟ دوسرا نمازی زور سے قہقہہ مارتا ہے،حولدار صاحب کا کہنا یہ بھی ہوتا ہے کہ اسٹیٹ بینک والوں یا محکمہ اعداد و شمار کے پُرزے اُڑانے والے آخر غلط سلط اعداد و شمار پیش کرنے کے بجائے یہ کیوں نہیں تجزیہ کیلئے پیش کرتے ہیں کہ ملک میں چوریوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے، لوگوں کی جوتیاں یا نئے اسنیکرز کتنی تعداد میں چوری ہوئی ہیں، بہرحال اِس کی گواہی تو میں خود بھی دے سکتا ہوں. ہمارا بھتیجا جو ہر سال انگلینڈ سے پاکستان جاتا ہے اور جب بھی وہ اپنے نئے اسنیکر کو پہن کر نماز پڑھنے جاتا ہے تو اُسے ننگے پیر اپنے گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ اِس طرح کی واردات سے اُسے مسلسل ہر سال دوچار ہونا پڑتا ہے. اور بالآخر مجبور ہوکر وہ پاکستان جانے سے توبہ کر لیا ہے، جب بھی اُسکے والد لندن میں اُس سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا وہ اِس سال پاکستان نہیں جائیگا تو وہ اپنے جوتے کو دیکھتے ہوے یہی جواب دیتا ہے کہ ابھی نہیں ابھی اُسکا اسنیکر بالکل نیا ہے، معلوم ہوا ہے کہ لندن میں پاکستانی لڑکوں کی باضابطہ ایک تنظیم بن گئی ہے جو اِس اسرار رموز پر بحث و مباحثہ کرتی ہے کہ اُنکا جوتا پاکستان میں کیوں چوری ہوجاتا ہے. ایک لڑکے نے بتایا کہ اُس نے ایک بس میں ایک گھنٹے تک سفر کرتا رہا، اِس دوران ایک دوسرا لڑکا اُس کا تعاقب کرتا رہا. جب وہ بس سے اُتر کر ایک مسجد میں نماز پڑھنے گیا ، اور جب وہ واپس آیا تو اُس کا جوتا غائب تھا، اُسے سخت ناراضگی ہوئی . اُس نے دور نظر سے دیکھا تو وہی لڑکااُس کا جوتا لے کر دوڑ رہا تھا. جب وہ اُس کے قریب پہنچا تو اُس لڑکے نے اُس کے جوتے کو ایک گھر کی چھت پر پھینک دیا. لندن سے گئے ہوے لڑکے نے صرف اُسے اتنا کہا کہ ” مسجد سے جوتے چوری کرنا اچھی بات نہیں.”
جوتے کا مسجد سے چوری ہوجانا بھی معشیت کا ایک پہلو ہے جو اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں جوتے کے شائقین بہت موجود ہیں، وہ برداشت نہیں کرسکتے کہ اُن کی پسند کی کوئی چیز کوئی دوسرا پہن رہا ہو.اور اگر کوئی جوتا چوری کرتے ہوے پکڑا جاتا ہے تو وہ بجائے اُس کے سر پہ جوتا برسانے کے اُسے معاف کردیتے ہیں، لوگوں کو علم ہے کہ ملک کی معاشی حالت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ لوگ نیا جوتا خریدنے کے بھی متحمل نہیں ہیں۔
بہرکیف مختصرا”عرض یہ ہے کہ آخر میں کیوں ملک کی معشیت پر اپنا قلم اٹھاؤں. ملک کی معشیت نہیں کرکٹ کا میچ ہوگیا ہے. آپ اِسے سراہتے ہوے کسی کو کہتے ہیں کہ اب یہ بحال ہوتے ہوے نظر
آرہی ہے. لیکن دوسرے ہی لمحہ آپ کو خبر آتی ہے کہ روپے کی قیمت مزید گر گئی ہے. پاکستان کے خزانے
میں ڈالر 5 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گیا ہے. ٹھیک اِسی طرح کرکٹ کے میچ میں بھی ہوتاہے. ایک لمحہ میں
میچ کا کایا پلٹ جاتا ہے. سارے کھلاڑی 82 رنز پر آؤٹ ہوجاتے ہیں. پاکستانی باؤلرز کی یوں پٹائی ہوتی ہے کہ تماشا بین اسٹیڈیم چھوڑ کر بھا گنا شروع کردیتے ہیں۔
اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بے شمار افراد معشیت کے موضوع پر ہمہ تن گوش اپنے خیال کا اظہار کرنے کیلئے بے چین رہتے ہیں . اُن میں ہمارے پڑوسی جو پیشہ کے لحاظ سے ایک حکیم ہیں اور جن سے میں کئی مرتبہ نزلہ زکام کیلئے دوائیں لے چکا ہوں لیکن افاقہ کا دور دراز تک کوئی نام و نشان تک نہیں رہا ہے.اُنہوں نے مجھے محلے کے دوسرے افراد کے ساتھ اپنے دواخانہ میںچائے پر مدعو کیا۔
بات چیت کا موضوع تھا کہ ملک کی معیشت کو کس طر ح بحال کیا جائے. حکیم صاحب نے جوش میں آکر فورا”کہا کہ جب مولا جٹ جیسی فلم 150 کروڑ کا بزنس کر سکتی ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ہمارے ملک کے فنکاروں میں کافی پوٹنشئیل ہے، ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہر محلے میں ایک ناٹک گھر بنایا جائے اور محلے کے نوجوانوں کو اداکاری کے فن سے آشنا کیا جائے اور جب وہ پختہ ہوجائیں تو اُنہیں فلموں میں
ہیرو یا ہیروئیں کے کردار کیلئے منتخب کیا جائے. حکیم صاحب نے کہا کہ اُن کے آباؤاجداد پشت درپشت سے طبلہ، ہرمونیم اور اداکاری کے فن سے وابستہ رہے ہیں ، اِس لئے اُن میں ناٹک گھر کو چلانے کی پوری صلاحیت موجود ہے، محلے کے تمام لوگوں نے سبحان اﷲکا نعرہ لگاکر حکیم صاحب کو خراج تحسین پیش کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here