حضرت عمر نے جب اسلامی کیلنڈر بنانے کا ارادہ کیاتو مشاورت کے لئے لوگوں کو بلایا اس وقت بہت ساری باتیں سامنے آئیں بہت سارے لوگوں نے مختلف مشورے دیئے،تفسیر روح المعانی ؛میں اس کی تفصیلات درج ہیں کسی نے مشورہ دیا کہ اسلامی سال کو معراج کے مہینے سے شروع ہونا چاہئے۔ کسی نے حضرت خدیجہ سے آپ صلی وسلم کے نکاح کے مہینے کا مشورہ دیا ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ماہ وصال کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا جا ئے ۔ کسی نے نزول قرآن کو اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ قرار دینے کا مشورہ دیا ، کسی نے کہا وفات نبوی ۖکی تاریخ سے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا ہونی چاہئے ۔ سترھویں صدی ہجری میں حضرت عمر کے دور حکومت میں جب خراج وغیرہ بہت زیادہ آنے لگا تو اس وقت مسلمانوں کو اسلامکیلنڈر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کا حساب کتاب کس مہینے سے شروع کیا جائے ۔پہلا مہینہ کونسا ہوا آخر مہینہ کون ساہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحجہ کے آخری ایام میں ہجرت شروع کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو محرم کی پہلی تاریخ تھی اسی مہینے کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیاتمام مشورے کے بعد جب سب نے اپنی اپنی رائے دے لیں تو مسجد میں موجود بعض جگہ پر یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا تھا اور بعض جگہ ہے کہ مسجد میں موجود کسی نمازی نے یہ مشورہ دیا جوسب کو پسند آ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ماہ میں ہجرت فرمائی تھی اسی مہینے کو اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ قرار دیا جانا چاہئے،چاند کے چکر پر یہ سال مبنی ہے ،نئے چاند کے نکلنے پرمہینہ تبدیل ہوتا ہے ،ہجری مہینے میں دنوں کی تعداد 29یا 30 ہوتی ہے، ہجری سال شمسی کیلنڈر کے مقابلے میں ہر سال گیارہ دن آگے ہوتا ہے، اس کی وجہ سے اسلامی تہوار ہر سال مختلف موسموں میں آتے ہیں۔
محرم الحرام(شہراللہ )کو اللہ تعالیٰ کا مہینہ کہا گیا ہے یہ اضافت تعظیمی ہے ۔تعظیم کی وجہ سے اللہ کا مہینہ کہا جاتا ہے صحیح مسلم میں ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے ہیں، اس مہینے میں جب جی چاہے روزے رکھ سکتے ہیں ،دس محرم الحرام کا روزہ خاص اہمیت کا حامل ہے یہ ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے، حسن بصری کہتے ہیں اللہ نے سال کی ابتدا بھی حرمت والے مہینے سے کی اور اختتام بھی حرمت والے مہینے سے ۔رمضان کے بعد سب زیادہ بابرکت مہینہ محرم ہے ،نئے سال کا آغاز ہے اور اس کے لیے عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ جب نیا سال یا نیا مہینہ آتا ہے تو نئے سال کی دعا اس طرح سیکھتے جیسے قرآن سیکھتے تھے ،اللھم ادخلہ علینا بالامن والایمان ؛؛والسلاموالاسلام وجوار من الشیطان و رضوان من الرحمان؛ امن اور ایمان سلامتی اور اسلام کے ساتھ شیطان سے بچا اور اللہ کی رضا مندی کے ساتھ داخل فرما،یہ ماہ چونکہ حرمت کا مہینہ ہے اس لیے اس ماہ میں اللہ کے بندوں کے حرمت کا خیال رکھنا چاہیے دوسرے مہینوں کی نسبت اس ماہ میں گناھوں اور برائیوں سے اجتناب کرنا چاہئے کہ اللہ کے بندوں پر کوئی زیادتی یا ظلم نہ ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالخصوص دس محرم کا روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے فرعون سے آزادی کا دن یہودی اس دن عید مناتے تھے جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ فرعون سے نجات حاصل کرنے پر عید مناتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم زیادہ قریب ہیں، موسیٰ علیہ السلام سے لہٰذا ہم یہ روزہ رکھیں گے لیکن یہودیوں کی مخالفت میں دو روزے رکھیں گے اگر وہ ایک رکھتے ہیں تو دو روزے رکھیں گے یا تو نواور دس کے رکھیں گے یا دس اور گیارہ کے یہ دونوں مسلم سے روایت محرم اللہ کے نزدیک محترم مہینوں میں شامل ہے رجب ؛ذو القعدہ ؛ذوالحجہ؛ اور محرم یہ چار مہینے ہیں جس کو حرام مہینے کہا جاتا ہے اس میں جنگ کرنا، بدلہ لینامعصیت کے کام کرنا، فتنہ فساد کرنا ،ظلم وزیادتی کرنا،کسی کو ستانا ،اللہ کی نافرمانی کرنا حرام ہے اسی لئے مہینے کو محرم الحرام کہا جاتاہے عاشورہ یعنی دس محرم کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے لہٰذا جو اللہ کے لئے ،جنت کی طلب کے لئے ،جہنم سے نجات کے لئے، جنگ و جدل فتنہ اور فساداور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اہل مکہ محرم میں جب کبھی جھگڑا لڑائی کرنا چاہتے تو آگے کر دیتے تھے ، سفرکے بعد کر دیتے تھے ،اس لیے کہ تین ماہ تک مسلسل برائیوں سے رکنا لڑائی، جھگڑے سے اپنے آپ کو روکناان کے لئے مشکل تھااس مہینے کی حرمت کو مشرکین مکہ بھی مانتے تھے ،روزے فرض ہونے سے پہلے مشرکین مکہ اس دن روزہ رکھا کرتے تھے اور اسی دن کعبہ کو نیا غلاف پہنایا جاتا تھا ،یہ دن یہودیوں کے لئے عید کا دن بھی تھا یہودی عاشورہ کے دن جشن منایا کرتے تھے یہ دن ان کی عورتوں کے بننے سنورنے کا دن تھا عاشورہ اللہ کے خاص دنوں میں سے ایک دن ہے ۔رمضان کے روزے سے پہلے بھی یہ روزہ فرض تھا،عاشورا کا روزہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی نہیں چھوڑا ۔یعنی دس محرم کا روزہ یہودی تشکر کے طور پر یہ روزہ رکھتے تھے(ربیعہ بنت معوذ)سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ کی صبح انصار کے گائوں میں کہلا وا بھیجاکہ جس نے صبح اس حالت میں کی، روزے سے نہ ہو تو روزے کی نیت کرلے اور جو روزے دار ہے وہ پورے کرے پھر ہم خود بھی روزہ رکھتے اوراپنے بچوں سے بھی رکھواتے اور انہیں بہلانے کے لیے اون وغیرہ دے دیا کرتے تھے تاکہ وہ روزہ پورا کریں، حضرت عبدالقادر جیلانی نے اپنی کتاب ؛غنی الطالبین؛ میں لکھا کہ دس محرم کو یوم عاشورہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن کواللہ عزوجل نے دس انعامات عطا فرمائے نوح علیہ السلام کی کشتی کا ٹھہرنا جودی کے مقام پر اسی دن ہوا نمبر2 یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ سے نکلنا اسی دن ہوا، ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچایا گیا ۔ فرعونوں سے موسیٰ علیہ السلام کو نجات ملی ۔فرعون کو غرق کیا گیا ،عیسیٰ علیہ السلام کو اسی دن آسمان کی طرف اٹھایا گیا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے کافروں سے نجات ملی ۔ مدینہ پہنچے اور آپ کاوالہانہ استقبال کیا گیا تو یہ مہینہ نجات کا مہینہ ہے شکر کا مہینہ ہے ہجرتوں کا مہینہ ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ عاشورہ کے دن کی فضیلتیں تاریخ میں بہت ساری اعتبار سے محفوظ ہیں اسی دن سیدنا ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا ۔ حضرت سلیمان علیہ اسلام کو ملک عظیم کی بادشاہی اسی دن عطا فرمائی گئی ۔سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کی جدائی میں نابینا ہو گئے تھیجس دن بینائی واپس ہوئی وہ دس محرم کی تاریخ تھی ۔ اسی دن یوسف علیہ السلام کوئیں سے نکالے گئے ۔ سیدنا یونس علیہ السلام اسی دن مچھلی کے پیٹ سے نکلے ۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کی ولادت اسی دن ہوئی ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ولادت بھی دس محرم کو ہوئی ۔عیسی علیہ السلام کو آسمان کی طرف واپس اسی دن بلایا گیا ۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت اسی دن ہوئی ۔یوم عاشورہ کی اہمیت اور یہ دن اللہ کے نزدیک کتنا معتبر اور پسندیدہ ہے ،اس کا اندازہ تاریخ کی ان روایتوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پتہ چلتا ہے کہ عاشورہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے گویا اللہ تعالیٰ جس طریقے سے رمضان کے مہینے میں گناہوں کی مغفرت کا وعدہ فرماتا ہے اسی طرح اس عاشورہ کے دن ہمیں گناہوں سے استغفار کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے روزے کے دوران اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہئے مجھے تو لگتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیل کا طریقہ سیکھایا ہے کہ سیل کیسے لگانی ہے وہ نیکیوں کی سیل کسی نہ کسی بہانے لگاتا رہتا ہے تاکہ ہم اللہ کی جنت کی طلب کریں جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے جنگ و جدل اور فتنہ و فساد اور گناہ کی باتوں سے اپنے آپ کو بچاتے رہیں ۔ہم لوگ ان کاموں کو چھوڑ کر مختلف طرح کی بدعتوں میں مصروف ہو گئے ہیں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو دس محرم کو شہید کیا گیا عاشورہ کے دن ہمیں ان کی قربانیوں کو ضرور یاد رکھنا چاہئے اور ان سے سیکھنا چاہیے جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا ہے!
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ہم اس کربلا کے قربانیوں کو یاد رکھیں کہ اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے کیسی قربانی چاہئے، امام حسین جیسے ایما ن اور اخلاص پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔دین کی خدمت پر کمربستہ ہو نے کی ضرورت ہے اسلام کی سر بلندی کے لئے ہر طرح کی قربانیوں کے لئے تیار رہنا
٭٭٭