ہم ہی کیوں مرتے ہیں!!!

0
219
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن ! اے میرے عزیز ہم وطنوں آپ لوگ جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کی نظیر کرہ عرض پر کہیں نہیں ملتی ایسا لگتا ہے کہ ہم سب عالم مد ہوشی میں پڑے ہوئے ہیں میری اپنے دو بڑے عزیز دوستوں سے ملک کی سیاست کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، پہلا دوست ہائی کورٹ کا وکیل ہے اس نے کہا کہ سردار صاحب لعنت بھیجیں سیاست پر اس وقت تو مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے میں نے استفسار کیا کہ میرے محترم مہنگائی کا جن تو تقریبا ہر مہینے سے سر چڑھ کر بول رہا ہے بتانے لگے کہ میرا دفتر کوئی گز کا ہو اور بجلی کا بل ہزار روپے آیا ہے میرا تو خود کشی کرنے کو دل کرتا ہے ہائے بھوک و افلاس میں پلنے والوں کا تو سنا تھا کہ وہ بھوک سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو تو موت کی نیند سلا رہے ہیں اور خود بھی خود کشی کر رہے ہیں لیکن اب وکیل بھی خود کشی کا سوچ رہے ہیں اور دوسری طرف مافیا حکومتی تخت پر بیٹھ کر راج کر رہی ہے کاش خودکشی کرنے والوں کو اللہ اتنی طاقت دے دے کہ وہ خود مرنے کے بجائے ہمیں خود کشی پر مجبور کرنے والوں کو تہ تیغ کریں وہ مہنگائی کا رونے کے بجائے انقلاب برپا کریں جانتا ہوں کہ یہ کام سفید پوش وکیل صاحب تو کر نہیں سکتے لیکن قوم کو جگا تو سکتے ہیں رونے کے بجائے سڑکوں پر نکل آئیں اور ان بدمعاشیوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں جنہوں نے اپنی لوٹ مار سے ہمارے سانسوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔
قارئین وطن ! آج سفید پوش طبقہ اپنے معصوم بچوں کی خوشیوں کے لئے محنت کر کرکے نڈھال ہو رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں انہوں نے بتایا کہ میرے بچے صبح ناشتے پر پی نٹ بٹر بڑے شوق سے کھاتے تھے اور وہ سو روپے کا آتا تھا اب اس چھوٹی سی بوتل کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اب خود بتائیں کہ بچوں کا ناشتہ خریدوں پندرہ بیس ہزار بجلی کا بل بھروں اپنی دوائیاں خریدوں ان ظالموں نے سیاست کا جنازہ تو نکالا ہی ہے ہم سفید پوشوں کو زندہ درگور کر دیا ہے میں ان کو کیا بتا تا کہ میرے چھوٹے سے گھر کا بجلی کا بل ہزار آیا ہے اور امریکہ میں رہتے ہوئے میرا دل پھٹ پڑا ہے صبح شام عزیز و اقارب کی مہنگائی نے چیخیں نکال دیں ہیں صرف چند لوگوں کی وجہ سے جو ہماری سیاست کے ناخدا بنے بھیٹیں ہیں ہم کروڑ عوام ہیں اور یہ چند لوگ صرف اس لئے طاقت ور بنے بیٹھیں ہیں کہ ان کے پیچھے ہمارے کور کمانڈروں کی پشت پنہائی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اور کور کمانڈروں کے جھتے کے درمیان فیصلہ کن معرکہ کب ہوتا ہے اور اس شہبازی نوازی مافیاں کب ٹھکانے لگتے ہیں ۔
قارئین وطن ایک اور دوست سے بات ہو رہی تھی عمران خان کے حوالے سے حضرت نے کوئی دو درجن عمران خان کی شخصیت میں کیڑے نکالے انہوں نے کہا کہ ہم نے خان صاحب سے بڑی امیدیں لگا رکھی تھیں ہم نے بڑی دعائیں اس کے لئے مانگی لیکن اس نے ہمیں بڑا مایوس کیا ہے اس نے اپنے تین سالہ دور میں چوروں اور قومی لٹیروں سے مصلحتیوں کے سوا کوئی کام نہیں کیا انہوں نے کہا میرے سینہ کا ایک حصہ اس کے دئیے ہوئے چوروں کو دی ہوئی رعایتوں کی وجہ سے کالا ہو چکا ہے لیکن دوسرا حصہ اس کی جراتوں کی وجہ سے سفید ہے کہ اس نے جس انداز میں فوج کو للکارا ہے اور پوری دنیا میں ان کی کرتوتوں کو عیاں کر کے قوم کا دل جیت لیا ہے جس فوج کے سامنے نواز شہباز اور زرداری اور ان کے گماشتے جھکتے ہیں اس نے ان سے ٹکر لے کر ہمیں آزادی کی ایک نئی لہر دے کر ہمارے زخموں پر مرہم لگائی ہے آج اس کے خوف سے ان کے ہوش اڑے ہوئے ہیں جس دن فوج اپنے آپ کو سیات سے الگ کر لے گی ہمیں نواز شہباز اور زرداری سے چھٹکارہ مل جائے گا اور عوام مہنگائی کے آسیب سے بھی نجات حاصل کر لے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اب عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ خود کشی کرنے کے بجائے عمران خان کے ساتھ مل کر فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔
قارئین وطن ! فوج اور مافیا گھٹ جوڑ میں ہماری عدلیہ کا بھی بڑا ہاتھ ہے چیف جسٹس بندیال صاحب نے اپنے کمزور رویہ کی وجہ سے آئین کے پرخچے اڑا دئیے ہیں پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں بڑے بڑے ججوں کے نام ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ کو تباہ کیا ہے لیکن عزت مآب بندیال صاحب نے فوجی خوف کے سامنے لیٹ گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں کو شہبازی مافیا اپنے پاں کے نیچے روند رہی ہے پاکستان کی تباہی میں سب سے بڑا حصہ ہماری عدلیہ کا ہے جسٹس منیر سے شروع ہونے والا سفر آج بھی اسی رفتار سے جاری ہے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب منیری بندیال ہی نکلے ہیں جو شخص اپنے منصب کی عزت نہیں کروا سکتا اس کو اپنے منصب سے الگ ہوجانا چاہئے خیر اب تو اس نے / دنوں میں عوامی خون میں لتھڑے ہوئے ریٹائرمنٹ بینی فٹ لے کر چلے جائیں گے اور نئے آنے والے خوش آمدید کے ڈونگروں میں ویلکم کیا جائے گا اور ہمارے سفید پوش طبقہ اپنی خود کشی جاری رکھے گالم ہی کیوں مرتیہیں پاکستان زندہ باد ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here