چین اور پاکستان کی پاکستان سے دوستی کئی دہائیوں پر محیط ہے یہ ساتھ شروع تو جنرل ایوب خان کے دور میں ہوا تھا لیکن اس تعلق کا سہرا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے جو اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اور وہی اسی دوستی کے رشتہ کے معمار تھے اور انہوں نے ہی امریکہ سے چین کے مراسم کی بنیاد ڈالنے میں مدد کی تھی جولائی1971میں ہینری کسینجد بطور نکسن کے وزیر خارجہ کے خفیہ ملاقات کیلئے جس میں ایک خفیہ دورے پر چین گئے اس ملاقات کے پیچھے بھٹو صاحب بطور وزیر خارجہ دونوں دھڑوں کو آخر کار ایک میز پر بٹھانے کی تگ ودود تھی۔ امریکہ کو بھی بھٹو صاحب سے اس وقت تک کوئی مسئلہ نہیں تھا جب تک بھٹو نے ڈاکٹر قدیر کے تعاون سے ایٹمی منصوبہ بندی کی بنیاد نہیں ڈالی تھی جسکا انجام کسنجر کی بہن سے بطور وزیراعظم پاکستان آخری اور مشہور ملاقات ہوئی تھی جس میں کسنجر نے وہ مشہور جملہ کہا تھا کہ محترمہ بھٹو اگر تم نے ایٹمی منصوبہ فوراً ترک نہیں کیا تو ہم تمہاری مثال بنا دیں گے۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے چین نے باوجود ایک بڑی طاقتور فوج ہونے کے باوجود کسی جنگی مجموئی کا حصہ بننے سے گریز کیا آج امریکہ جیسا طاقتور ملک بھی انکا مقروض ہے۔ آج چین معاشی طور پر دنیا کا امریکہ کے بعد سب سے طاقتور ملک ہے اور روس نے اپنی مہم جوئی کی وجہ سے اپنی رہی سہی عالمی حیثیت اور مقام کو کھو دیا ہے ورنہ نو لاکھ ساٹھ اسکوائر میل علائقہ کا مالک دنیا کے دوسرے بڑے ممالک سے دوگنا زیادہ علائقہ کا مالک ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ صدر پیوٹن کے غرور اور حودسری کی وجہ سے آج تینوں بڑی طاقتوں میں سب سے معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گیا اور اسی وجہ سے اب اندرون ملک روسی عوام میں بیچینی بڑھتی جارہی ہے یہ صورتحال چین کے لئے کافی اپنے اثررسوخ کو عالمی سطح پر مددگار ہوگی۔ چین نے تیسری دنیا کے کئی ممالک سے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ پاکستان میںCPECاور اس سے منسلک منصوبوں میں اٹھانوے ارب(98) بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جوکہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی طویل مدتی سرمایہ کاری ہے۔ امریکہ اس عمل کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا کیونکہ اس سے جہاں چین کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے چین اثررسوخ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ وہاں دوسری طرف پاکستان کا امریکہ پر انحصار بھی آگے چل کر اور کم ہوجائیگا۔ اگر پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوگا تو اپنے فیصلے اپنے مفاد اور اپنے حالات کی بنیاد پر آزادانہ طور پر کریگا۔ پراجیکٹ عمران بھی اسی لئے وجود میں آیا تھا کہ بدعنوانی کے الزام کو استعمال کرتے ہوئےCPECپراجیکٹ کو تارپیڈو کردیا جائے۔ وہ تو عمران خان کے جوتوں کے ڈبوں نے ڈبو دیا۔ بحرحال اب امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان مکمل طور پر چین پر اپنی معاشی معاملات میں انحصار نہ کرے۔ عرب بادشاہوں کو بھی پاکستان میں شکار کرنے کا شوق ہے پھر کیوں نہ ”ہم خرمہ وھم ثواب” حاصل کیا جائے۔ لیکن بہرحال ٹکرا جائے اس لئے کہ انہیں پتہ ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان ”عمران خانوں” سے بھرا ہوا ہے عمران خان ایک رویہ(AHitude)کا نام ہے مغرب سے تعلیم حاصل کرکے لوٹنے والے زمان پارک جیسے علائقوں کے لونڈے سمجھتے ہیں کہ وہ عقل قل ہیں اور باقی سب کچہرہ ہے اور کچہرے کے ساتھ وہ کام نہیں کرسکتے یہ بہت اچھا ہوا کہ جنہوں نے پراجیکٹ شروع کیا تھا انہوںنے ہی سمیٹ لیا ورنہ یہ کچھ اگر گلی محلہ اور شہروں میں پھیل جاتا تو اس گند کے تعفن سے گھٹن بڑھ جاتی جوکہ ویسے ہی مہنگائی بیروزگاری اور بھوک سے بہت بڑھ چکی ہے۔ عرب کے بادشاہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہCPECسے کہیں زیادہ کی سرمایہ کاری پاکستان میں وہ کرکے پاکستان کی تقدیر سنور دیں گے۔ لیکن انکی شرائط بڑی دوہی تھیں کہ ہم سرمایہ کاری کرینگے جب افواج پاکستان اس کی ذمہ داری لیں گے انہیں احساس ہے کہ سیاستدانوں اور انکے اقتدار کا کوئی بھروسہ نہیں کبھی کوئی ثاقب نثار ناراض ہو تو انہیں فارغ کردیتا ہے۔ کبھی کوئی جنرل مشرف ناراض ہو کہ ملک کے منتخب وزیراعظم کو جیل میں ڈال کر دال کھلاتا رہتا ہے۔ اسلئے انہوں نے اس مرتبہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی مضبوط دھڑے پر ذمہ داری ڈالو اسلئے کہ پاکستان میں خدا نہ کرے کہ ککھ بھی نہ رہے دو دس لاکھ فوج کی نفری تو ہوگی ہی ہوگی! دوسری شرط یہ ہے کہ ہمارے کسی منصوبے پر نیب یا اس کے نعم البدل کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے میاں برادران کو ڈھکنے کیلئے چینیوں کو ”وفتہ پایا” وہ ڈرامہ ہم سے نہیں کرنا۔ انہوں نے سرمایہ کاری کرنے سے پہلے اپنےTero…..con… شرائط شروت طئہ کرلیں ہیں۔ تسی ایوئیں ٹی عرباں نوں سائیں سمجھ دے دیو ”اگر ان سے آپ نے گڑ بڑ کی تو یہ آپ کو ”خشوگی” بنا دیں گے۔
اس سارے معاملے میں اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے نئے فوجی سربراہ نہایت صاف ستھرے اور ایماندار ہیں لیکن کل اگر کوئی آگے چلتے ریٹائرمنٹ کے بعد انکا نعمد بدل کوئی غلط بندہ آگیا تو اس لئے اب یہ بادشاہ کیونکہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو اسے محفوظ کرنے اور رکھنے کیلئے نئی تقرری میں کچھ کہنے(SAY) کا حق رکھیں گے۔ راقم تو یہ تجویز دیگا کہ ابھی سے نئی منتخب اسمبلیوں سے جنرل عاصم منیر کا(PERSON SPECIFIC) مدت پانچ سال تو کم ازکم کرا دی جائے تاکہ نئے پراجیکٹس میں ایک یکسوئی پیدا رہے اور پہلا پانچ سال کی مدت کسی منصوبہ کیلئے اہم ترین عرصہ ہوتا ہے کیونکہ یا آج کی صورتحال میں کسی اور تجربہ یا مہم جوئی کا مقدمہ نہیں ہوسکتا۔ تسلسل کو قائم رکھنے کیلئے سیاستدانوں کو یہ اگر کڑوی گولی لگے تو نگلنی پڑیگی ورنہ پاکستان میں استحکام کبھی نہ آسکے گا۔It is now or naver sitnation۔
٭٭٭٭