اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب کی عوام نے عمران خان کے بیانہ سے اتفاق کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت، سیاسی انجینئرنگ اور لوٹا ازم کو مکمل طور پر رد کردیا ہے۔اور یہ فیصلہ شہری اور دیہی علائقوں پوٹھوہار سے لیکر جنوبی پنجاب کے لوگوں نے یک زبان ہوکر کیا ہے۔پرانے سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے انداز غلط ثابت ہوئے اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو حیران کردیا ہے۔20نشستوں میں سے پندرہ نشستیں حاصل ہوچکی ہیں راولپنڈی والی سیٹ پر دوبارہ گنتی جاری ہے۔ایک اندازے کے مطابق یہ سیٹ بھی بابر اعوان کے بھائی شبیر اعوان جیت سکتے ہیں اب حالات تیزی سے عام انتخابات کی طرف جارہے ہیں کیونکہ موجودہ وزیراعظم شہبازشریف کی جماعت کے پاس کسی صوبہ میں حکومت نہیں رہیگی یہ بھی پہلی مرتبہ ہونے جارہا ہے کہ ایک جمہوری وزیراعظم جس کی جماعت کچھ عرصہ پہلے تک ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی اور جو ایک لمبی مدت تک پنجاب کے کامیاب وزیراعلیٰ بھی رہتے آئے۔حالیہ انتخابات میں انکے فرزند کو پنجاب بالخصوص لاہور کی عوام نے حکومت سے فارغ کرنے کا فیصلہ کردیا کچھ حلقہ اب بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا”ن”لیگ کے ساتھ ہاتھ ہوگیا اور انہیں مختصر عرصہ کے لئے اقتدار میں لاکر پنجاب کی سیاست سے مستقل طور پر فارغ کردیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں اور آئندہ انتخابات میں سامنے آجائیگا اور ہونے والے عام انتخابات زیادہ دور نہیں ہیں اب عمران خان کے عام انتخابات کروانے والے مطالبہ کو تقویت مل گئی ہے۔پہلی مرتبہ پنجاب کے لوگوں نے کھل کر طاقتور حلقوں کی سیاسی مداخلت پر اپنی ناپسندیدگی کی مہر ثبت کردی ہے۔دوسری طرف عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کی وجہ سے پاکستان کے معاشی مسائل میں بدترین اضافہ ہونیوالا ہے۔IMFاب پاکستان کی کوئی مدد نہیں کرنے جارہی ہے سعودی عرب کی بھی بائیڈن حکومت سے قربت پاکستان کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔اگر عام انتخابات میں سارے پاکستان کی عوام نے عمران خان کی حمایت کردی تو اس کے اثرات بین الاقوامی گروہ بندیوں پر نمایاں طور پر اثرانداز ہونگے جس کے نتیجے میں ایران، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک میں قربت بڑھ سکتی ہے۔جسے عرب ممالک کبھی پسند نہیں کرینگے۔البتہ پرانے علاقائی اتحادRCDکی تجدید سے پاکستان کیلئے نہایت مفید حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔اس وقت ترکی اور ایران بھی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔پنجاب کے حالیہ انتخابات اور نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کیا ہے۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی حقیقت کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا یہ ہے ایک بہترین روایت کی بنیاد کے مساوی ہے اور جو قصہ کی جاتی ہے کہ یہی جذبہ عام انتخابات تک برقرار رہیگا۔اب بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب گیند تحریک انصاف اور عمران خان کے کورٹ میں یا میدان میں ہے اب انہیں پنجاب میں اقتدار میں آکر عوامی بہبود کیلئے محنت کرنی ہے لیکن اگر پنجاب کی باگ ڈور ان کے مطابق نپجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے حوالے کرنی ہے جنہوں نے پنجاب میں ایک لمبے عرصہ تک حکومت کرکے پنجاب کی تباہی میں ایک بڑا حصہ ڈالا ہے اور جن کی سیاست بھی اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت ہے تو جو تبدیلی وہ چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں آسکتیں۔اگر تو زوردار اور چودھری پرویز الٰہی جیسے لوگوں کو پنجاب میں اقتدار دیا گیا تو پھر تحریک انصاف بھول جائے کہ وہ عام انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کر پائیں۔چودھریوں نے بطور خاندان پنجاب کو شاہی اور انتظامی سیاست اور آمریت کی غیر مشروط حمایت کے کچھ نہیں دیا۔پنجاب میں فتح کے بعد ہی عمران خان کا اصل امتحان شروع ہوگا فیصلہ ان کا ہے کہ کیا وہ پرانے چار سال والی چال چلنی ہے یا جو تقاریر میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہیں۔بنیادی طور پر عمران خان بلکل تنہا ہیں انکے ساتھ ناکارہ لوگوں کی ٹیم ہے اسلئے عمران خان کو تبدیلی لانے کیلئے پہلے اپنے مزاج کو تبدیل کرنا پڑیگا۔اور اس کامیابی کو اپنا غرور بنانے کے بجائے اسے ایک آخری موقعہ سمجھ کر ایک نئی حکومتی ٹیم بنا کرموثر طور پر عوام کے مسائل کے حل کیلئے جت جانا چاہئے آنے والے وقت میں خدمت کو فضلیت دینی چاہئے،بدلے کی فرعونیت جیسے شیطانی خیال سے دور رہنا نہایت ضروری ہے۔سیاست کے پرانے بت اب دھڑا دھڑ گرنے لگیں گے بشرطیکہ عمران خان سمجھداری سے اپنا نیا کردار نبھانے کیلئے تیار ہوجائیں ورنہ ناکامی کی ذلت اس مرتبہ انکو گمنامی کی انیک کھایوں میں پھینک دیگی۔عوامی اعتماد کو حاصل کرنے میں تو زیادہ وقت لگتا ہے لیکن غلط فیصلوں سے عوام کی نفرت کا جواب جلد ہی مل جاتا ہے۔ تو اب ہر قدم سوچ سمجھ کے لینا ضروری ہوگا۔پاکستان اور اس کی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔
٭٭٭٭