زاہد نوید: نویدِ سحر!!!

0
393
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

پروفیسر زاہد نوید سے میری دوستی یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ ہم دونوں راولپنڈی کی معروف درسگاہ گورڈن کالج میں پروفیسر تھے اور کبھی کبھار ایک دوسرے کو تازہ کلام سناتے تھے۔ زاہد نوید کو اردو اور انگریزی زبان پر دسترس حاصل ہے۔ ان کے تعارف کے لئے اِتنا کہنا ہی کافی ہے کہ وہ میرے دوستِ دیرینہ ہیں۔ مزاج کے مثلِ آبگینہ ہیں اور ادب کی انگشتری پر ایک نگینہ ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ کا نام قاشِ نیم رس ہے جو اصل میں مرزا غالب کا تیرِ نیم کش ہے اور مسلسل کربِ جاں ہے۔ داستانِ خوباں ہے اور مرزا غالب کی طرح خوباں سے چھیڑ جاری ہے۔ یہ اشعار غمِ جاناں ، غمِ دوراں اور غمِ انساں کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ اِن کی شاعری میں روایت کی چاشنی بھی ہے اور جدت کی فکر انگیزی بھی ہے۔ بحور مترنم ، کلام پرسوز اور گنجین طلسم۔ اشعار میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ سستی شہرت سے دور اور شبِ تیرہ میں مثالِ چراغِ طور ہیں۔ روادار اور با مروت شخصیت ہیں۔ ان کی شاعری عام روش سے جدا ہے۔ بقولِ حیدر دہلوی
ابھی ماحول عرفانِ ہنر میں پست ہے حیدر
یکا یک ہر بلند آواز پہچانی نہیں جاتی
زاہد نوید کو ان کے نام کی نسبت سے زاہد و پارسا نہ سمجھا جائے۔ وہ ان پارساں کی پارسایی سے کوسوں دور ہیں جن کے بارے میں لسان الغیب حافظ شیرازی کے کہا تھا!
واعظان کین جلوہ بر محراب و منبر میکنند
چون بہ خلوت میروند آن کارِدیگر میکنند
زاہد نوید کا زہد زہدِ زاہداں نہیں بلکہ زہدِ عاشقاں ہے۔ مرزا غالب نے بھی خوب کہا تھا !
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
زاہد نوید کا عشق جوش ملیح آبادی کا عشقِ جارحانہ نہیں جو فرماتے ہیں
ہم زاہدانِ شہر ِ خرابات رات بھر
تسبیحِ زلفِ سیم تناں رولتے رہے
اور نہ ہی یہ عشق حسرت موہانی کا عشقِ شریفانہ ہے جو فرما گئے دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیو حسن نہیں عشق کو رسوا کرنا میر تقی میر سے کے عشقِ عاجزانہ کا بھی یہاں تذکرہ ہو جائے جو فرما گئے
دور بیٹھا غبارِ میر ان سے عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
رہا معاملہ ہمارے دوست احمد فراز کا تو وہ انگریز شاعر لارڈ بائرن کے ہمدم و ہمسازتھے اور عشقِ مردانہ کا اظہار یوں کرتے ہیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اِتنے حجابوں میں ملیں
اب ذرا زاہد نوید کے عاشقانہ تیور دیکھیں۔
اِن کا عشق افلاطونی عشقِ تصورانہ کا آئینہ ہے۔ فرماتے ہیں
اندیش ملال نہ خوفِ گزند ہے
دل کو فقط طوافِ تصور پسند ہے
اِن کی ایک غزل کے دو رومانوی شعر ملاحظہ ہوں!
بہار آئی تو جاں گا سیرِگلشن کو
میں لے کے جاں گا تازہ گلاب اس کے لئے
وہ اِتنا سادہ و معصوم ہے کہ یہ دنیا
ہمیشہ رہتی ہے مانندِ خواب اس کے لئے
سوزِ دروں کے ساتھ ساتھ فکرِ بروں یعنی بقولِ مرزا غالب اندیشہ ہائے دور و دراز بھی زاہد نوید کی شاعری کا خاصہ ہیں۔ عصری حساسیت نمایاں ہے۔ وہ تلخاب زندگی میں شرابِ انگبیں انڈھیل رہے ہیں اور تلخء زیست کو پیکرِاشعار میں ڈھال رہے ہیں۔ گویا بقولِ ساحر لدھیانوی
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے مجھ کو وہ لوٹا رہا ہوں میں
زاہد نوید کی شاعری کے موضوعات ہجر و وصال اور گل و بلبلِ تک محدود نہیں بلکہ متعدد و متنوع موضوعات پر مبنی ہے۔ اِن کی شاعری نعرہ بازی سے مبرا ہے۔ اِن کا یہ شعر حاصلِ شاعری ہے۔کہتے ہیں
ساحلِ زیست پہ جب ڈوبتے دیکھا مجھ کو
موجِ غم آئی مری سمت کنارا بن کر
ساحلِ زیست مسائل زیست کا استعارہ اور سوزِ باطن کا شرارہ ہے۔یہ شعر قاشِ نیم رس کی تفسیر اور شاعر کے خوابوں کی تعبیر ہے۔موجِ غم کا کنارا بننا رجائیت کی علامت ہے اسی لئے میں نے زاہد نوید کو نویدِ سحر کہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here