حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی مدثر محمود نارو کی جبری گمشدگی کیس میں اپنے فی الوقتی فیصلے جوکہ26مئی2022ء کو تحریر کیا ہے اپنے غصہ وغم کا اظہار کرتے ہوئے قانون کی پامالی کرنے والے سرکاری اداروں کو سختی سے تنبیہ کرتے ہوئے پرویز مشرف سے عمران خان بشمول موجودہ وزیراعظم شہباز شریف سے جواب طلب کی ہے اور اس امر کو نہایت ہی شرمناک قرار دیا ہے کہ آئین کے تحت شخصی و انفرادی آزادی کا تحفظ حاکم وقت پر لازم ہے لیکن اس کے باوجود مختلف ادوار میں اس مد میں جتنی آئین شکنی ہوئی ہے وہ نہ فقطہ قابل شرم ہے بلکہ آئین پاکستان کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے اور چیف جسٹس اسلام آباد نے خصوصاً سابق صدر اور آرمی چیف جنرل مشرف کی اس کتاب”لائین آف فائر” کا ذکر بھی کیا ہے جس میں جنرل مشرف نے مغربی ممالک کو مطلوب لوگوں کو ان ممالک کے حوالے کرنے کی بات بھی کی ہے(جس کے بدلے میں جنرل مشرف کو خطیر رقوم بطور انعام بھی موصول ہوئیں)چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم میں مزید کہا کہ افواج پاکستان کی توقیر ہم سب پر لازم ہے لیکن معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے لازم ہے کہ تمام ملکی ادارے یکسوئی سے آئین وقانون کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں اور اپنے اقدامات میں مروجہ قانون سے تجاوز نہ کریں۔چیف جسٹس نے مزید فرمایا کہ گمشدہ افراد کی برآمدگی نہ ہونے کی صورت میں تمام حکومتوں کے وزیر داخلہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ تمام اداروں کے تعاون اور مدد سے گمشدہ افراد کو ہر صورت میں بازیاب کراتے اسلئے انہوں نے تمام سابق وزرائے داخلہ بشمول موجودہ وزیر داخلہ کے عدالت میں ذاتی طور پر اس ناکامی کی وجوہات پر مشتمل جواب داخل کرانے کا حکم جاری کیا ہے اور تمام ذمہ داران کو اس ستم گراں کہ احساس بھی دلایا ہے جو گمشدہ افراد کے خاندانوں پر ٹوٹا ہے۔یہاں پر اس بات کا اعتراف اور تحسین کا ذکر ضروری ہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ اور سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیٰسی نے گمشدہ افراد کے معاملے کو کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا بلکہ مسلسل زندہ رکھتے آئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں کئی طعنے اور تبرے بھی برداشت کرنے پڑے جسٹس عیٰسی کو تو اپنی صلیب بھی اپنے ہی کاندھے پر اٹھانی پڑی جو انکے خلاف ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ کی عدالتی کمیٹی میں پیش ہونا ہے ریفرنس سابق وزیراعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو بھیجا۔اب تو وہ اس حرکت پر نادہ ہیں لیکن آزادی کی تڑپ اور ضمیر کی آواز اس وقت کہاں تھی جب خان صاحب آپ ستارہ مسیح بننے پرآمدہ ہوگئے تھے اپنی دمہ پر پیر پڑا تو آپ کے اندر کا خان جاگ گیا آپ نے نہیں سوچا کہ جو دبائو میں آکر ایک عزت دار جج پر تہمت لگانے چلے ہو وہ کل تمہارے آڑے آئیگی۔یہ مکافات عمل ہے مدخبر محمود نارو کو بالاکوٹ ہزارہ کے مقام سے اسوقت اغواء کیا گیا تھا جب وہ اپنی اہلیہ صدف چھ ماہ کے بچے سچل کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے تھے اغوا کی واردات 2018ء میں ہوئی مئی2021میں مدثر ناروکی اہلیہ صدف اس صدمے سے دل کے دورے کا شکار ہو کر وفات پا گئی۔چھ ماہ کی عمر میں سچل باپ کی شفقت سے محروم ہوا اور چار سال کی عمر میں سچل اپنی ماں کی مامتا بھی گنوا بیٹھا۔کیا خوب صلہ ملا سچل کو جس نے اپنے باپ کے کہتے ہوئے سچ کی سزا مکمل یتیمی کی صورت میں ملی۔ہمارے معاشرے کے ہرسچل کا یہی المیہ ہے۔طاقتور طبقات اس پر قہر کی بجلیاں گراتے ہیں۔ارسطو نے تو ایک زہر کا پیالہ پی کر موت کو گلے لگالیا تھاآج کے دور کے ہر سچل کو زندگی بھر زہر کے پیالے سے ایک ایک گھونٹ لیتے ہوئے روزانہ آہستہ موت(SLOW DEATH)جھیلنی پڑتی ہے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے جیدار فیصلے کا ایک فائدہ تو ہے ہوا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کی ایک طاقتور کمیٹی بنائی ہے جس میں جبری گمشدہ افراد کے معاملے کو فوری حل کرنے کیلئے تمام خفیہ ایجنسیوں اور افواج پاکستان کے ذم داران کو کو آپٹ(CO-OPT)یعنی بوقت ضرورت کمیٹی میں شامل کرکے جلد ہی ایک مفصل رپورٹ آئندہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے اور ساتھ میں وزیر داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ انکی حکومت میں اور ایسی جبری گمشدگیاں نہ ہوئیں۔بقول جسٹس اطہر من اللہ کے کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات کروانے والے اور ایسے واقعات کی پشت پناہی کرنے والے تمام افراد آئین شکنی کے مرتکب ہیں جوکہ ملک اور آئین سے غداری کے زمرے میں آنے والا جرم ہے۔جنرل باجوہ کو بھی اپنے ذیلی اداروں کو سخت احکامات دے کر ایسے واقعات کو روکنا ضروری ہے۔
٭٭٭٭