اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے کہا ہے کہ آنے والے دس سالوں میں دنیا میں معاشی بدحالی کے سبب84کروڑ لوگ بھوک کا شکار ہوں گے، جنرل سیکرٹری نے مزید کہا کہ ہم معاشی بدحالی غذائی قلت بھوک کو موثر حکمت عملی سے شکست دے سکتے ہیں۔لیکن اس کے لئے سیاسی استحکام سیاسی قوت ارادی اور فیصلہ کن قوت اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ہمارا وطن عزیز پاکستان بھی ان معاشی بدحالی کے شکار ملکوں میں ایک ہے ہمارے تجزیہ کار دنیا کے مختلف ملکوں کی مارکیٹ اور ریٹ سے موازنہ کرتے ہیں۔مثلاً میں امریکہ میں رہتا ہوں جب میں اس ملک میں آیا تھا۔تو اس وقت پیٹرول ستر70سینٹ گیلن تھا۔اور اب پیٹرول5ڈالر گیلن ہے یاد رہے کہ ایک ڈالر میں سو100سینٹ ہوتے ہیں۔لیکن اس وقت مزدوری کا ریٹ ایک گھنٹے کے3.25ڈالر تھے اور اب مزدوری سرکاری طور پر پندرہ ڈالر فی گھنٹہ ہے۔پٹرول ڈلواتے وقت دل پہ ہاتھ تو پڑتا ہے مگر جیب اجازت دے دیتی ہے ٹینک فل کروا لیتے ہیں۔اس لئے تجزیہ نگاروں کو ایمانداری سے حالات بتانے چاہئیں تاکہ غلط فہمی نہ ہو۔الحمد للہ ہم مسلمان ہیں مگر ہم نے اللہ کے پاک کلام کو صرف مرنے والوں کی قرآن خوانی تک محدود کرلیا ہے اگر ہم غیروں کی مثالیں دینے کی بجائے اللہ کے پاک کلام کو ہی کھول لیتے اور راہنمائی طلب کرتے تو ہمیں غیروں کے نمائندے بلا کر اپنے ملکوں کو گروی نہ رکھنے پڑتے۔سیاسی استحکام فیصلہ کن قوت اور منصوبہ بندی کے لئے ہمیں کسی سے مدد مانگنے کی ضرورت ہی نہیں ہے جتنے بھی معاشی ماہرین میں ان کو قرآن پاک کھول کر سورہ یوسف نکال کر غور کرنے کے لئے دے دیں۔پھر دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے مصر کے بادشاہ کو خواب آیا سات موٹی تازی گائیوں کو سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں۔سات خوشے گندم کے سر سبز ہیں اور سات شک بادشاہ نے دربار کے مصاجین سے خواب کی تعبیر پوچھی مصاجین نے کہا آپ کی پریشان خیالی ہے بادشاہ مطمئن نہ ہوا۔بادشاہ کے ایک ملازم نے کہا کہ جیل میں ایک نوجوان ہے جو خواب کی تعبیر سچی بتاتا ہے۔ہم اسے آزما چکے ہیں بادشاہ نے قید سے رہائی دلوائی۔حاضر کیا گیا آپ نے کہا آنے والے سات سال خوش حالی کے ہیں اور پھر سات سال قحط کے ہیں۔بادشاہ نے کہا ہم اس کو کیسے حل کرسکتے ہیں۔ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا مصاجین بھی سر ہلا کر رہ گئے تو پھر حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام نے فرمایا پھر ایسا کریں کہ مجھے بااختیار وزیر خزانہ بنا دیں میں پوری قوم کے پورے چودہ سال خوش حالی میں بدل دوں گا۔سیدنا یوسف علیہ السلام نے سات سال خوش حالی کے گندم ذخیرہ کیا جانوروں کے لئے چارہ اکٹھا کیا ،خوش حالی کے سات سال راشن سسٹم قائم کیا سب کو ضرورت کے مطابق دیا، پندرہواں سال بے تحاشہ غلہ اور چارا پیدا ہوا،پوری وجہ میں دولت کی ریل پیل ہوگئی۔بادشاہ نے شاہی تاج حضرت یوسف کے سر پہ رکھ دیا کہ مجھ سے زیادہ تم دیکھ بھال کر سکے ہو۔
٭٭٭