گزشتہ دنوں یہ خبر گردش کرتی رہی کہ حکومت پاکستان نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے پیاز اور دیگر سبزیاں دبئی سے پاکستان درآمد کیں، کچھ لوگوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ دراصل عوامی دبائو کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت سے براہ راست خریداری کرنے کے بجائے بھارتی منڈی کی یہ سبزیاں دبئی سے خریدی گئیں۔
میں آپ سے پہلے بھی کئی کالموں میں اس بات کا تذکرہ کر چکا ہوں کہ اب دنیا میں جنگ اس بات کی نہیں کہ کس کے پاس کتنے ہتھیار اور طیارے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ کس ملک کی معاشی حالت کتنی مستحکم ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کا نتیجہ کیا سامنے آرہا ہے؟بے پناہ اسلحہ اور جنگی وسائل سے مالا مال روس کیا یوکرین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکا،دوسری جانب کئی ممالک نے روس پر حملہ کئے بغیر ان کی معیشت پر بے پناہ حملہ کر کے اسے مزید کمزور بنانے کا کام شروع کر دیا، جس کا ادراک سروسز جیسے ملک کو بخوبی ہے۔تو کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمیشہ تعلقات کسی نام نہاد روایتی دشمنی کے زیر سایہ ہی رہیں گے۔
اگر اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کر فرض کرلیا جائے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول سے بھی خوشگوار ہو گئے ہیں تو اس کے دونوں ملکوں کی معاشی حالت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، یقینا اب آنکھیں آنکھیں بند کر کر دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ملک اپنی قومی آمدن کا ایک بڑا حصہ جو کہ دفاع کے نام پر خرچ کرتی ہے اپنی عوام کی فلاح و بہبود پر لگانے کے قابل ہو جائیں گے، اپنے اپنے ممالک میں قدرتی ذخائر کی دریافت پر یہ رقم خرچ کی جا سکے گی، ایک دوسرے کو بد نام کرنے کی بے بنیاد پروپیگنڈا مہم پر خرچ ہونے والے کروڑوں یا اربوں روپے بچنا شروع ہوجائیں گے، ایک دوسرے کی جاسوسی کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔اگر ہماری یہ خوش فہمی سچ ثابت کو تو اس سرمائے سے دونوں ممالک کی عوام کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے لیے بھارت کی منڈیاں دنیا کے دیگر منڈیوں کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے دستیاب ہیں اور پاکستان بھی اپنی منڈی کی تیار کردہ اشیا بڑی آسانی سے بھارتی منڈیوں تک پہنچا سکتا ہے، غرض سے ان دونوں ممالک کے درمیان اگر یہ نام نہاد دشمنی کا خاتمہ ہوجائے تو کبھی یہ نوبت نہیں آئے گی کہ ایک دوسرے کا مال اٹھانے کے لئے کسی تیسرے ملک کی منڈی کو استعمال میں لانے کی ضرورت پیش آئے۔ پھر پاکستان کو بھارتی منڈی کی سبزیاں دوبئی سے درآمد کرنے کی ضرورت رہے گئی اور نہ ہی پاکستانی چاول بھارت کو دبئی کی مارکیٹ سے اٹھانے کی تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ لیکن لیکن یہ ساری باتیں خوش فہمی ہی ہیں، روایتی دشمنی کا کا پروپگنڈہ نا جانے ہماری کتنی نسلوں تک بھی چلنا ہے
٭٭٭