نیویارک میں ایک ادبی تقریب میں ممتاز شاعر اور دانشور جناب ڈاکٹر ششی کانت اپل سے ملاقات ہوئی۔ قرع فال بنامِ منِ دیوانہ زدند کے مصداق تقریب کی صدارت میں کر رہا تھا اور تقریب کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر ششی کانت اپل تھے۔ اسٹیج پر ہم ایک دوسرے سے متعارف ہوئے تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق بھارت سے ہے اور نیویارک میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لیے آتے جاتے رہتے ہیں۔ گفتگو میں مزید راز منکشف ہوا کہ ڈاکٹر ششی انگریزی، اردو اور پنجابی میں شاعری کرتے ہیں۔ اِس مثرد جانفزا نے دل باغ باغ کردیا۔ یہ جان کر از حد خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب ہر قسم کے مذہبی، نسلی، قومی ، لسانی اور ملکی تعصبات سے بالا تر ایک انسان دوست شخصیت ہیں۔ آپ نے انگیریزی میں ایک جامع کتاب بھی تصنیف کی ہے جس میں روحانیت، تصوف، فلسف روح اور انسانی اخوت پر اپنے نظریات بیان کیے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مشاعرے میں اپنا اردو اور پنجابی کلام سنا کر سامعین سے خوب داد وصول کی۔ ڈاکٹر صاحب کا نیا شعری مجموعہ جس کا عنوان دیا خاموش ہے آپ کی تازہ غزلیات ہیں۔ آپ نے اس مسودہ کی واٹس ایپ بھیجی ہے اور کتاب کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اخلاص اور شعری عظمت کا تقاضا ہے کہ اِس پر اظہارِ خیال کروں۔ اِس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آپ کا اُردو زبان کے معاصرین شعرا میں ایک بلند مقام ہے۔ جیسے آپ ایک بند اخلاص ہیں ویسے ہی آپ کی شاعری بھی بوئے اخلاص سے دل و جاں کو معطر کرتی ہے۔ فارسی زبان میں آگ کا سرد ہو جانا یعنی انگاروں کے بجھ جانے کو خاموش کردن کہتے ہیں۔ دیا خاموش ہے یعنی دیا بجھ گیا ہے۔ کیا یہ بام پر رکھا ہوا دیا تھا جسے وقت کی آندھی نے بجھا دیا یا یہ دل کے طاق پر جلایا ہوا دیا تھا جسے غم کی آندھی نے بجھا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں ڈاکٹر ششی کی شاعری میں تلاش کرنا ہے۔ محشر بدایونی نے کہا تھا اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا لیکن اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ ہوائیں باہر کے دئیے تو بجھا سکتی ہیں مگر اندر کے دیئے کو بجھانا کارے دارد جو کہ خارجی ہوائوں کے بس کی بات نہیں۔ اسی لیے ڈاکٹر ششی کہتے ہیں اِن ہواں کو بتا دے کوئی اِک دِیا اب بھی ہے جلتا مجھ میں وہ دیا کیا ہے؟ وہ دیا آتشِ دروں ہے جس کے سوز و گداز نے دل و دماغ کو وہ روشنء طبع دی ہے جس پر مرزا غالب یوں نوحہ کناں تھے اے روشنء طبع تو بر من بلا شدی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ دیئے اور وہ چراغ جن کو ہواں نے بجھا دیا تھا انہیں آخرِ کار دوبارہ روشن کرنے کے لیے خونِ جگر دینا پڑا۔ کہتے ہیں جن چراغوں کو ہواں نے بجھایا تھا کبھی ان چراغوں کو جلانے میں بہت دیر لگی گو کچھ چراغ دیر سے جلے مگر جلے تو سہی۔ یہ شعر ڈاکٹر ششی کی رجائیت کا آئینہ دار شعر ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ششی زندگی کی اِس تلخ حقیقت سے بھی باخبر ہیں کہ ہر چراغ چراغ نہیں ہوتا۔ جیسے خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے، ویسے ہر چراغ روشنی نہیں دیتا بلکہ شعلہ بھڑکا کر گھر کو جلا دیتا ہے۔ ایک نوجوان شاعر نے جب مشاعرے میں یہ شعر پڑھا تو سامعین ششدر رہ گئے۔ شعر تھا دل کے پھپولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے مرزا رفیع الدین سودا صدرِ مشاعرہ تھے۔ نوجوان شاعر کا یہ شعر سن کر تڑپ اٹھے اور بے ساختہ اسے نظرِ بد سے محفوظ رہنے کی دل سے دعا نکلی۔ لیکن یہ شعر اسے لے ڈوبا اور وہ نوجوان جل کر ناگہانی موت کا شکار ہو گیا۔ کچھ چراغ جلتے نہیں جلاتے ہیں۔ مثبت اور منفی اقدار کو ڈاکٹر ششی نے چراغوں کے حوالے سے روشناس کروایا ہے۔ کہتے ہیں جن چراغوں کو سلیقہ ہی نہیں جلنے کا ان چراغوں سے اجالا نہیں ہونے والا آپ کی شاعری میں چراغ ایک استعارہ بن کر ابھرتا ہے۔ کئی اشعار میں چراغ کو مختلف معانی میں استعمال کرتے ہیں۔ دو شعر ملاحظہ ہوں دل میں روشن ہے جو چراغِ جنوں آندھیوں سے کہاں بجھے گا وہ جن سے روشن تھا روشنی کا چراغ وہ سخنور تو اب رہے ہی نہیں جب شاعری کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور یہ اندازِ بیاں وہ چراغِ جنوں ہے نہ کہ چراغِ فسوں جو ہمیں غالب کے ہاں بھی جلتا دکھائی دیتا ہے اور ڈاکٹر ششی کے ہاں بھی فروزاں ہے۔ جب تک یہ چراغِ جنوں نہیں جلتا باہر کے دئیے تو بجھ جاتے ہیں اندر کا دِیا نہیں بجھایا جا سکتا۔ میر تقی میر نے کیا خوب کہا تھا زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی اب سنگ مداوا ہے اِس آشفتہ سری کا آپ کی غزلیات سادہ و سلیس ہیں۔ اکثر اشعار سہلِ ممتنع کی عمدہ مثال ہیں۔ اردو شاعری میں مرزا غالب، میر انیس، مرزا دبیر اور جوش ملیح آبادی کی شاعری پر فارسیت کا رنگ و آہنگ نمایاں ہے۔ جبکہ مومن خان مومن اور داغ دہلوی کی شاعری سادہ و سلیس ہے۔ مومن خان مومن کا یہ شعر تو زبان زدِ خلق ہے۔ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ڈاکٹر ششی کی ساری شاعری سہلِ ممتنع کی عکاس ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔ کہتے ہیں دن کو بے شک وہ دن کہے نہ کہے رات کو رات ہی کہے گا وہ یہ حکم ہے کہ بہاروں میں قافلہ نہ رہے کسی بھی شاخ پہ پتہ کوئی ہرا نہ رہے دیکھ پا گے نہیں غرق مجھے ہوتے ہوئے میں تو گرداب میں ہوں، تم تو کنارا دیکھو محبوبہ کی بیوفائی کا شکوہ شاعری کی روایت ہے۔ یہ شکوہ ذاتی بھی ہو سکتا ہے اور استعاراتی انداز میں اہلِ دنیا سے بھی ہو سکتا ہے۔ ذاتی اور روایاتی انداز میں وہ یوں شکوہ کناں ہیں مسئلہ یہ نہیں تو میرا نہیں مسئلہ یہ ہے تو کسی کا نہیں کتنا سادہ اور سلیس شعر ہے۔ گویا ہر چہ از دل خیزد بر دل ریزد والا معاملہ ہے۔ استاد فوق لدھیانوی کے شعری مجموعہ زخمِ جاںمیں اسی کیفیت کا ایک شعر ہے۔ کہتے ہیں یہ میرا دل ہے کیسے ملے اجنبی کے ساتھ تیری نظر نہیں کہ ملے ہر کسی کے ساتھ جو شخص خواب نہیں دیکھتا وہ کچھ نہیں دیکھتا۔ یہ آدرش ہی ہیں جو حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ شاعر خواب دیکھتا ہے اور دنیا کو دنیا کی حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔ ڈاکٹر ششی کہتے ہیں پھر ہم ہی بتائیں گے کہ کیا چیز ہے دنیا کچھ دیر ابھی اِس کو ذرا دیکھ رہے ہیں ڈاکٹر ششی کی شاعری رومانی، انسانی اور انقلابی خصوصیات سے مزین ہے۔ وہ قنوطیت سے کوسوں دور رجائیت کے نقیب ہیں۔ ان کے خواب پیامِ انقلاب اور درسِ انسانیت ہیں۔ وہ ایک پرامن ، معتدل اور عدل پرور معاشرے کا خواب کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود ہیں غیب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں ڈاکٹر ششی نہایت سادہ زبان میں اپنے رجائی خوابوں کا ذکر یوں کرتے ہیں رات کتنی ہی دردِ سر ہو مگر خواب پھر بھی سحر کے دیکھیں گے فیض احمد فیض نے دلبرداشتہ ہو کر کہاتھا یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں ڈاکٹر شاشی مایوس کن حالات میں بھی پر امید ہیں کہ وہ سحر کے خواب طلوعِ سحر تک دیکھیں گے۔ ہر زندہ ضمیر اور روشن فکر انسان کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ انسانوں کے ہجوم میں انسان تلاش کرتا رہا ہے۔ رومی کے مشہور اشعار ہیں دی شیخ با چراغ ھمی گشت گِردِ شہر کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود، جستہ ایم ما گفت آنچہ یافت می نشود آنم آرزوست ہرعظیم شاعر اور فلسفی انسان دوست ہوتا ہے اور اسے انسان کی تلاش رہتی ہے۔ آدمی سے انسان بننے کاسفر بڑی ریاضت کا کٹھن سفر ہے۔ بقولِ غالب بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کوبھی میسر نہیں انساں ہونا رومی اور غالب کی طرح ڈاکٹر ششی کانت اپل اس منافق اور یار مار معاشرے میں انسان کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ حفیظ جالندھری کا مشہورِ زمانہ شعر ہے دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی اِن محسن کش اور انسانی روپ میں بھیڑیوں کے بارے میں ڈاکٹر شاشی یوں شکوہ کناں ہیں۔ کہتے ہیں ہمارے ہی ترکش کا وہ تیر تھاجو ہماری ہی جانب چلایا گیا ہے ڈاکٹر شاشی کانت اپل امن و انسانیت کے شاعر ہیں اور وہ انسان اور انسانوں کے معاشرے کی تلاش میں ہیں۔ میری آواز ہے شامل تری آواز کے ساتھ – ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کرتے ہوئیاِس دیباچہ کا اختتام اپنے ایک شعر پرکروں گا انسان کہاں ڈھونڈیں، حیوانوں کی بستی میں انسان نہیں ملتے انسانوں کی بستی میں ۔
٭٭٭