جس وقت ہم یہ سطور سپرد قلم کر رہے ہیں کپتان کا عزم مصمم اور عوام الناس کا کپتان کے حق میں ولولہ، جوش اور بھرپور والہانہ ساتھ دینا ہمیں اپنے دور طالبعلمی میں لے گیا ہے جب اس وقت کے آمر حکمرانوں کے خلاف انتہائی احتجاجی مہم اپنے عروج پر تھی۔ترقی پسند اور آمریت مخالفت رہنما اپنے احتجاجی جلسوں، جلوسوں میں اس دور کی ایک انقلابی نظم”جاگ اُٹھے ہیں مرے دیس کے مظلوم عوام” پڑھا کرتے تھے اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کا ہم آواز ہوتا تھا۔آج آدھی صدی سے زیادہ گزرنے کے بعد عمران خان کی تحریک اور جدوجہد پھر وہی منظر پیش کر رہی ہے۔متذکرہ بالا نظم کا ایک بند ہماری نظر میں عمران کی تحریک اور بیانیئے کی واضح تصویر نظر آتا ہے۔
”لاکھ جکڑو ہمیں زنجیرو سلاسل میں مگر
اب نہ رک پائیں گے ہم باغی جیالوں کے قدم
آفتاب ابھرے گا دھرتی کے سیاہ چہرے سے
انقلاب آئے گا مٹ جائیں گے سب چور وستم
اب بدل جائے گا صدیوں کا یہ فرسوہ نظام
جاگ اُٹھے ہیں مرے دیس کے مظلوم عوام
کپتان کے خلاف جس طرح عالمی مقتدر قوت کے ایما ومنشاء پر مقامی آلہ کاروں، ہینڈلرز اور گماشتوں نے سازش کا کھیلا اور آئینی طریقہ کار کی آڑ میں اسے اقتدار سے محروم کرکے غلاموں پر مبنی بھان متی کے کنبے کی امپورٹڈ حکومت بنائی گئی۔اسکی حقیقت سے نہ صرف ہر پاکستانی(ملک میں اور بیرون ملک) واقف ہے بلکہ احتجاج اور شعلہ فشانی کا مہیب آتش فشاں بنا ہوا ہے۔بلاول جتنا بھی کہتا رہے کہ سازش وائٹ ہائوس میں نہیں بلاول ہائوس میں ہوئی، کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے۔یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ یہ سارا کھیل کن وجوہ پر کھیلا گیا ور اسکے منصوبہ ساز کن بنیادوں پر رجیم کی تبدیلی چاہتے تھے۔عمران خان کے بے باک، بے خوف اور کھر سے بیانیئے اور عوام کے سمندر کی حمایت نے نہ صرف جعلی حکمرانوں بلکہ مقتدرین اور فیصلہ سازوں کو اس دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں”نہ جانے ماندن ہے نہ پائے رفتن” کپتان شعلہ جوالا بنا ہوا ہے اور عوام اس جنگ میں کپتان کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن کر وقت کے حکمرانوں اور ان کے سہاروں کے لئے حلق کی ہڈی بن گئے ہیں۔
کپتان کے کھلے دبنگ اور مزاحمتی بیانات اور عوامی ریسپانس وجذبات کے طوفان سے گھبرا کر عوامی حمایت سے محروم جعلی وچور حکمرانوں نے جلسوں کا راستہ اختیار کیا لیکن کامیابی اور مقبولیت ان کا مقدر نہ بن سکی اور پھر وہ اپنی اس کینہ فطرت پر اتر آئے جو ہمیشہ سے ان کا خاصہ رہی ہے۔سپریم کورٹ پر حملہ، ماڈل ٹائون کی خونریزی، بی بی کی شخصیت کشُی اور اس طرح کے متعدد مخالفانہ اقدامات ان کے سیاسی نامہ اعمال سے بھرے پڑے ہیں۔
کپتان کے تاریخی جلسوں اور عوام کے بے پناہ اژدھام، ان عوامی سپورٹ سے محروم حکمرانوں نے سیالکوٹ میں جس درندگی اور سرکاری مشینری کے استعمال سےCTIگرائونڈ میں قیامت صغری برپا کی وہ بقول عثمان ڈار دوسرا واقعہ ماڈل ٹائون بن سکتا تھا۔مسیحی برداری کی آڑ میں لیگیوں کی اس شیطانیت اور دہشت گردی سے اس برائی کا کھلاڑیوں نے قلع قمع کیا بلکہ تاریخی جلسہ کرکے مخالفوں کو ہزیمت وشرمندگی سے دوچار کیا۔ہماری ان سطور کے تحریک کئے جانے تک کپتان کے عوامی سپورٹ کے حامل جلسوں کا تانتہ بندھا ہوا ہے۔اور اقتدار کے ایوانوں میں مایوسیوں کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔حکمرانی کی ہوس میں عمران کو اقتدار سے بیدخل کرنے والے اس خوش فہمی میں تھے کہ اپنے مخصوص سہاروں اور ریاستی مشینری کے استعمال سے وہ نہ صرف عمران کو زیر کرلیں بلکہ جن وجوہات کو بنیاد بنا کر عمران مخالف تحریک کے باعث حکمرانی میں آئے ہیں، بیرونی آقائوں، اداروں اور فیصلہ سازئوں کے سہارے ان مسائل پر نہ صرف قابو پالیں بلکہ اپنی حکمرانی کو بھی طول دے سکیں گے لیکن عمران کی جرات، استقامت اور اصولی کردار کے ساتھ اپنے مئوقف پر کھڑے رہنے سے ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔لندن پلان میں چار روز جُٹھ اور مجرم، مفرور قائد کے فیصلوں پر ہمارے ذرائع کے مطابق وقت کے حلیف بھی راضی نہیں لگ رہے ہیں۔ایم کیو ایم کے خالد مقبول کا کہنا ہے کہ انتخابات فوری کرا دیئے جائیں ریاست کو بچانے کے لئے حکومت قربان کرنی ہوگی۔
حقیقت یہی ہے کہ سیاست کے اس بدترین حال سے جہاں سیاسی وآئینی عدم استحکام کا بحران وفاق اور سب سے بڑے صوبے میں مجہول وغیر فعال ہو کر رہ گیا ہے وہیں معیشت گزشتہ بارہ سال کے نچلے ترین اشاریئے پر جاچکی ہے۔بیورو کریسی انتظامی عوامی بہبود کے ادارے امن وامان کی صورتحال دوبارہ سر اٹھا چکی ہے وزیرستان میں دہشت گردی خودکش حملے میں تین فوجیوں کی شہادت، تین معصوم بچوں کی مفروبیت اور عوام کی ہلاکتیں ہوئیں۔کراچی میں پے درپے کراچی یونیورسٹی،صدر اور بولٹن مارکیٹ میں دہشت گردی کے واقعات تازہ ترین ہیں۔یہی نہیں خود کپتان کا انکشاف کہ انہیں(خدا نخواستہ) ختم کرنے کی منصوبہ بندی(سازش)کی گئی ہے۔اور انہوں نے اس سازش میں ملوث لوگوں کے ناموں سمیت ایک وڈیو محفوظ کر دی ہے۔اور کسی بھی ایسی صورتحال کے وقوعہ پر سازشی قاتلوں کو منظرعام پر لے آیا جائے گا۔افسوس کہ موجودہ حکومت کپتان کے اس دعوے کو عمران کے عوام کی ہمدردی کے حصول کا بیانیہ قرار دے کر ثبوت مانگ رہی ہے۔کیا حقیقت یہ نہیں کہ اس ملک میں پہلے بھی وزرائے اعظم غیر ملکی آقائوں کے مفاد کی بھینٹ چڑھائے جاچکے ہیں۔اور کیا یہ بھی سچ نہیں کہ دنیا کی طاقتور ترین ریاست کے حساب پر اپنے اختیار واقتدار کے تحفظ کے لئے درجنوں سرابراہان ریاست وحکومت موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔اس صورتحال میں کیا یہ لازم نہیں کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس ادارے اپنے فرائض انجام دیں۔سابق وزیراعظم کی مجرم بیٹی کے لئے سکیورٹی کا انتظام کرنے والے سابق وزیراعظم اور عوام کے مقبول ترین رہنما کی حفاظت کے فول پروف انتظام کریں۔مریم نواز اور رانا ثناء کی اس ایشو پر لغو بکواس مسئلہ کا حل نہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کپتان کی سکیورٹی کے مکمل تحفظات کا اہتمام کرے۔لیاقت علی خان اور بی بی کی شہادت ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔خدا نہ کرے عمران خان کے ساتھ اس طرح کے اقدامات کی پاکستان دشمن قوتوں کی جانب سے بھی کوشش خارج از امکان نہیں، ایسی صورت میں حالات اس سنگینی کا باعث ہونگے جو27دسمبر کی سنگینی کو بھلا دیں گے۔عمران خان اس وقت عوام میں جس مقبولیت کے درجے پر ہیںکسی بھی ناگفتہ حادثے سے ملک غیر استحکام وشورش سے دوچار ہوسکتا ہے۔ہمارے اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی ذمہ داران کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا۔ہمیں عمران کی فطرت اور اولوالعزمی کا پتہ ہے۔کہ وہ جان پر کھیل سکتا ہے اپنے مئوقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ہمارا تجزیہ ہے کہ اب فیصلہ ساز بھی دوسری سوچ پر آگئے ہیں کہ ریاست اور عوام کا تحفظ ان کے لئے اولین ہے اور جاگ اٹھے ہیں میرے دیس کے عوام اب کوئی رکھ نہیں سکتا میری ملت کو غلام کی صورتحال موجودہ حالات کو برداشت نہیں کریگی۔عوامی اعتماد کا ووٹ ہی بحران کا حل ہے۔
٭٭٭٭