ہم نے اپنے گزشتہ کالم ”بڑے دشمن بنے پھرتے ہیں یہ بچوں سے لڑتے ہیں” میں مسلم دشمن بھارت و اسرائیل کی چیرہ دستیوں اور مکروہانہ اقدامات پر اظہار مذمت و تنقید کرتے ہوئے عالمی قوتوں کے کردار خصوصاً عالمی برتری کے دعویدار امریکہ کے صدر ٹرمپ کی دو رُخی پالیسی اور پینٹاگون کے ایجنڈے پر اپنے تحفظات اور پیش آمدہ حالات پر تشویش ظاہر کی تھی۔ ہم نے شومین و ڈیل کے اظہار کے حوالے سے اس کاامکان اظہار بھی کیا تھا کہ صدر ٹرمپ موجودہ عالمی کشیدگی کی صورتحال میں مصالحانہ کردار کے ابلاغ کا اظہار کر کے دسمبر میں عالمی امن نوبل پرائز کے حصول کیلئے اپنے اس کردار کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں جبکہ اندر خانہ امریکی انتظامیہ کا مرکزی مقصد ایک جانب خصوصاً اپنے لے پالک اور امریکی معیشت میں اہمیت کے حامل اسرائیل کی سپورٹ تو دوسری جانب چین سے مسابقت میں خوف و تشویش کا سبب ہے۔ ہم صدر ٹرمپ کے دوسری بار منتخب ہونے سے اب تک کے عالمی منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو موجودہ تنازعات پر مصالحت اور معاہداتی ڈول ڈالا جا رہا ہے تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی بین الملکتی، مذاہب و مفاداتی آگ کے شعلوں کو بھڑکانے کا کام بھی جاری ہے، ایک جانب مذاکرات کا اہتمام تو ساتھ ہی محاذ آرائی بھی۔
تازہ ترین صورتحال یوکرین اور روس کے حوالے سے یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان استنبول میں مذاکرات کی بساط بچھائی گئی کہ دونوں فریق کسی مصالحت پر اتفاق کر سکیں، اسی دوران روس نے روزانہ بڑے پیمانے پر یوکرین پر ڈرونز کی برسات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ٹرمپ کا پیوٹن کو ٹوئیٹ کہ تم آگ سے کھیل رہے ہو اور تمہارا یہ اقدام نہایت سنگین نتائج کا حامل ہوگا، گویا جلتی پر تیل کا کام ثابت ہوا اور نتیجے میں یوکرین کی جانب سے شدید اسپائڈر حملے میں روس کے 5 ایئر بیسز کی مکمل تباہی اور بڑے جہازوں کے نیست و نابود ہونے کی تفصیل سے تو یقیناً قارئین مکمل آگاہ ہو ہی چکے ہیںبلکہ روس کے جوابی اقدام کی تفصیل بھی آپ تک پہنچ چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے متذکرہ ٹوئیٹ کا اصل مقصد کیا تھا خصوصاً ایسے وقت میں جب ان دونوں ممالک یعنی روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرا ت طے ہو چکے تھے، ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ یہ ٹوئیٹ ٹرمپ نے اپنی چوہدراہٹ کے غرور میں کیا ہے یا بہ مجبوری امریکی ایڈمنسٹریشن کے دبائو اور عالمی برتری برقرار رکھنے کے ایجنڈے کے تناظر میں ہے کہ قوموں اور ملکوں کے درمیان تنازعات کا سلسلہ جاری رہے، ہمارا یہ تجزیہ اس لئے تقویت پاتا ہے کہ امریکہ کے اسرائیل و غزہ کیلئے مجوزہ معاہدے پر تادم تحریر نہ دونوں فریقین کی جانب سے کسی قسم کی آمادگی سامنے آئی ہے، نہ مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم و تباہ کاری میں کوئی کمی ہوئی ہے۔
یوکرینی حملے اور روسی دفاعی نظام کی بدترین تباہی کے جوابی حملوں اور یوکرین کے مختلف شہروں میں ڈرونز، بیلسٹک و دیگر خطرناک ہتھیاروں سے شدید حملوں کیساتھ روسی انتظامیہ کا مؤقف کہ یہ کارروائی کوئی بڑا حملہ نہیں اس بات کا اشارہ ہے گویا یہ معاملہ اب روس اور یوکرین تک ہی محدود نہیں رہنا، اس آگ کے شعلے یورپ و نیٹو ممالک تک پھیل سکتے ہیں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یوکرین حملوں میں استعمال ہونیوالے ٹرک جرمن، فرنچ اور برطانوی تھے اور روس اس حوالے سے اپنا انتقام لے گا، برطانوی وزیراعظم نے جنگی صورتحال کا اعلان کرتے ہوئے متوقع مکمل جنگ کا عندیہ دیا ہے۔ دن بہ دن بڑھتی ہوئی کشیدہ صورتحال پر بین الاقوامی ماہرین و مبصرین ان حالات کو عالمی بڑی جنگ کی پیشگوئی قرار دے رہے ہیں اور چین کی غیر معمولی عسکری صلاحیتوں، معاشی برتری اور عالمی اُفق پر پیش آمدہ تبدیلیوں کے پیش نظر موجودہ عالمی مقتدر قوت امریکہ کی منصوبہ بندی اور اپنی برتری برقرار رکھنے کا شاخسانہ گردان رہے ہیں۔ ماہرین کے ان تحفظات پر اگر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نیز چین کے ترقیاتی و معاشی سفر تک امریکی پالیسیوں و اقدامات پر نظر ڈالیں تو ماہرین کے تحفظات میں بہت صداقت نظر آتی ہے۔
9/11ء سے ایران اسرائیل تنازعہ، شام، اُردن سمیت مسلم ممالک کی صورتحال، غزہ کی تباہی کی تفصیل میں جائے بغیر ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ پلوامہ و پہلگام کی کہانی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی اور چین کی جنوبی ایشیاء میں سبقت کو ختم کر کے بھارت کو علاقے کی چوہدراہٹ دینے کی سازش تھی جو الحمد اللہ رب کائنات کے فضل سے اور ہماری افواج و شاہینوں کی جرأت و مہارت اور جذبے سے دشمن کی ذلت، رسوائی اور دنیا بھر میں جگ ہنسائی و شکست پر منتج ہوئی۔ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ خود اپنے گھر میں بد حواس مودی اور اس کے حواریوں کو سیاسی حریفوں، عسکری ذمہ داروں، حتیٰ کہ سمجھدار میڈیا، ساتھیوں اور سیندور بھیجنے پر عورتوں سے ذلت کا سامنا ہے۔ مودی اس حد تک حواس کھو بیٹھا ہے کہ پاکستانی نوجوان نسل کو روٹی کھائو ورنہ میری گولی کھائو کا بھاشن دے رہا ہے۔ اس کی حالت اس شعر کی تصویر ہے!۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جنونی مودی کو ابھی بھی یہ زعم ہے کہ وہ اپنی بہت بڑی فوج کے ناطے پاکستان پر پھر حملہ آور ہوگا لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ چڑیوں سے باز بھی مروا دیتا ہے، چیونٹیوں سے ہاتھی بھی مارے جاتے ہیں، بہر حال موجودہ یوکرین و روس کی محاذ آرائی کی شدت و کیفیت عالمی امن کے خاتمے اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ خدا کرے کہ صورتحال اس حد تک نہ پہنچے۔
٭٭٭٭












