ایماندار افسران !!!

0
218
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے پاکستان کی موجود صورتحال میں جہاں ملک و قوم کا عزم انتہائی بلند ہے ،پاک فوج نے دشمن کو جو دھول چٹائی اس کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے ، پاکستان نہ صرف اپنی دنیا میں اہمیت و مقام ظاہر کرنے میں کامیاب رہا وہیں دشمن کو اسکی اوقات پتہ چل گئی انکو معلوم ہوگیا جنگی سازوسامان پر بے تحاشہ وسائل خرچنے کے باوجود دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل کرکے بھی غرور کا سر نیچا ہی رہتا ہے ۔اس کامیابی کا سہرا بہادر افواج پاکستان کے دوست خیرخواہ ملک اور وہ افسران جو محب وطن ہیں جب وقت آیا سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے انہوں نے دشمن کے دانت کھٹے کردیئے ایسے لوگ کہاں سے آتے ہیں جس ملک کو مقروض ہونے کے طعنے دیئے جائیں جہاں ان کو مزاق کا نشانہ بنایا جائے جہاں ان پر تعلیم میں پیچھے رہ جانے کا احساس دلایا جاتا ہے ایسے ماحول میں یہ افسران کہاں سے آئے یہ بنیادی بات پتہ ہونا ضروری ہے جس کو سمجھنے کیلئے قدرت اللہ شھاب مرحوم نے ہماری مشکل آسان کردی کیونکہ ان کا تعلق ہماری عوام سے ہی ہوتا ہے ایک مثال ہماری زندہ و عظیم قوم کی اس مثال میں موجود ہے جہاں ہمارے بزرگ ایسے ہونگے تو سوچیں انکے تربیت یافتہ بچے کیسے ہونگے یہی بچے بڑے ہوکر ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کردیتے ہیں ۔قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا۔ جنگ کے دوران اس شہر کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا ۔ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد و نواح میں گھوم رہا تھا راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے،دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا “بیت المال کس طرف ہے؟” میں نے پوچھا بیت المال میں تمہارا کیا کام ؟بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا ؛ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انہیں اس “کھوتی” پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں ۔ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تا کہ انہیں بیت المال لے جائیں ۔آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا ۔ مجھے تو چاہیئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا ۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں ۔نیلسن منڈیلا کہتے ہیں! “ایمانداری، خلوص، سادگی، عاجزی، سخاوت، باطل کی کمی، اور دوسروں کی خدمت کرنا، لوگوں کے کام آنے کا جذبہ، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر ذی روح کے اختیار میں ہیں اور یہی ہماری روحانی زندگی کی حقیقی بنیادیں ہیں(نیلسن منڈیلا)
ان کا نام مبارک تھا۔ وہ ایک باغ میں عرصہ سے بطور پہرے دار کام کر رہے تھے ۔ ایک دن اس باغ کا مالک اپنے چند مہمانوں کے ساتھ باغ میں آیا اور حکم دیا: “مبارک! مہمان آئے ہیں، کچھ میٹھے انار توڑ کر لا اور ان کو مہمانوں کی خدمت میں پیش کرو ۔وہ چند منٹوں میں انار توڑ کر لایا ۔ مالک نے ایک انار چکھا تو سخت کھٹا تھا ۔ دوسرے کو توڑا وہ بھی کھٹا تھا ۔ مبارک کو آواز دی۔ہم نے تمہیں میٹھے انار لانے کو کہا تھا، تم کھٹے انار لے آئے۔وہ دوبارہ گئے اور انار لے آئے ۔ مالک نے ان کو توڑا تو وہ بھی کھٹے نکلے ۔ مالک سخت ناراض ہوا۔ “تم اتنے سالوں سے اس باغ میں کام کر رہے ہو ۔ تمہیں آج تک کھٹے اور میٹھے انار میں تمیز نہیں ہے؟مبارک نے عرض کیا کہ آقا!بلاشبہ میں کھٹے اور میٹھے اناروں میں تمیز نہیں کرسکتا ۔ میں نے آج تک اس باغ کا کوئی انار کھایا ہی نہیں ہے تو پھر کھٹے اور میٹھے میں تمیز کیسی؟
مالک نے جب ان کا جواب سنا تو سناٹے میں آ گیا اور وجہ پوچھی ،مبارک بولے: “آپ نے باغ کی رکھوالی میرے سپرد کی تھی، اس کا پھل کھانے کی اجازت نہیں دی تھی۔باغ کے مالک نے جب ان کا جواب سنا تو نہایت متعجب ہوا ۔ مبارک کے تقوی اور امانت داری پر مہمان ششدررہ گئے ۔باغ کے مالک کی بیٹی جوان تھی اور وہ اس کے لیے موزوں رشتے کا متلاشی تھا ۔ اچانک اس کے ذہن میں آیا کہ میری بیٹی کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی شخص موزوں نہیں ہو سکتا۔اس نے مبارک سے کہا کہ اگر میں تمہیں اپنا داماد بنالوں تو تمہارا کیا خیال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہود شادی کے لیے لڑکی کی مالداری کو ، عیسائی خوبصورتی کو اور امتِ محمدیہ کے لوگ تقویٰ اور دینداری کو معیار ٹھہراتے ہیں۔
مالک نے ان کا جواب سنا تو مزید متاثر ہوا، گھر آکر اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا کہ بلاشبہ مجھے بھی اپنی بیٹی کے لیے مبارک سے بہتر کوئی رشتہ نظر نہیں آتا۔ یوں مبارک کی شادی اس باغ کے مالک کی بیٹی سے ہو گئی اور پھر اس مبارک جوڑے کو اللہ تعالی نے اپنی برکت سے نوازہ۔ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام انہوں نے عبداللہ رکھا جو بڑے مشہور محدث ہوئے اور جنہوں نے اپنے علم سے ایک جہاں کو منورہ کیا۔دنیا ان کو امام عبداللہ بن مبارک رحم اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔(کتاب سنہری کرنیں: از عبد المالک مجاہد)اللہ پاک ہم کو زندگی ،ایمانداری سے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here