مولانا طارق جمیل کے ذہنی معذور بچے عاصم جمیل کی خودکشی پر ایک حلقے سے اعتراضات اُٹھ رہے ہیں کہ ایسے لوگوں کے لیے مذہبی لوگ اپنا چورن بیچتے ہیں ،اسلام کی طرف لگاتے ہیں اللہ کہتا ہے دلوں کو سکون اللہ کی یاد سے ملتا ہے بیماری اور مصیبت سے اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے سائکیٹررسٹ علاج دوائیوں سے کرتا ہے لیکن پھر بھی وہ سائیکالوجسٹ کو ریکمنڈ ضرورکرتا ہے جو مریض کو سنتا ہے اسے ایویلوایٹ کرتا ہے کوشش کرتا ہے کہ اسے اس کے پرابلم کا حل بتا سکے اسے دلاسہ دیتا رہتا ہے اسکا گول یہی ہے کہ جینے کی امید دلانا مگر چند دماغی مریض پھر بھی خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ تو اس مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ایک مذہبی لیڈر کے مریض بچے کی دلجوئی کرنے کی بجائے اس پر طنز کے تیر برسائے جا رہے ہیں، مذہبی لوگ بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو سائکالوجسٹ ایسے مریضوں سے کرتے ہیں میں تو یہ تک کہوں گا کہ پاکستان میں بلکہ ہر ترقی پذیر معاشرے میں یہ لوگ ایک فریضہ نبھا رہے ہیں ،لوگوں کو امید دلاتے ہیں انہیں اللہ پر بھروسہ کرنا سکھاتے ہیں کہ جو کچھ اچھا ہوتا ہے اس میں اللہ کی مہربانی ہے اور جو کچھ برا ہوتا ہے وہ آپکے اعمال کا نتیجہ ہے اور اللہ تنگدستی اور مصیبت سے ایک طرح سے تمہارا امتحان بھی لے رہا ہوتا ہے کہ اسکا بندہ کتنا شکر ادا کرتا ہے اور ثابت قدم رہتا ہے ،مذہبی لوگوں کے سمجھانے بجھانے کی وجہ ہے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا ورنہ اگر غریب اور تنگ لوگ بپھر گئے تو امیروں کے محلوں اور حکمرانوں کے ایوانوں میں بھونچال بھرپا ہو جائیں۔ چھوٹے میاں صاحب نے اپنے پنجاب کے دور حکومت میں کوشش کی تھی کہ جعلی ملائوں، ڈاکٹروں اور تعویز بیچنے والوں کی بیخ کنی کی جائے سمجھدار بیوروکریسی نے سمجھایا کہ سر جی صرف لاہور سے گجرات تک میں پانچ لاکھ کے قریب ایسے سرکردہ لوگ بیٹھے ہیں جو غریبوں کو لارا لپا لگا کر ہمارا کام سنبھالے ہوئے ہیں اگر یہ لوگ اٹھا لیے گئے تو حکومت پر بھاری ہوگا اور دوسرا ہمارے پاس اتنا مال اور انفراسٹرکچر نہیں کہ ان کا متبادل حکومتی خرچے سے مہیا کر سکیں یہ چونچلے امیر معاشرے میں ہی اچھے لگتے ہیں لہٰذا اپنا اپنا کام ہے جو ہم سب کو کرنا ہے ۔
٭٭٭