سابقہ صدر ٹرمپ سے مباحثہ کے بعد صدر بائیڈین کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں آرہی کوئی اخبار یا کوئی میڈیا ایسا نہیں کہ جو کہہ سکے۔ صدر بائیڈین موزوں صدر ثابت ہونگے۔پچھلے4سال میں جس تنزلی کا شکار ہوئے ہیں وہ ہمارے لئے اور اچھے امریکن کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سب سے پہلے صدر بائیڈین کی بارڈر کی خرمستیاں ہیں۔ پچھلے4سالوں میں بائیڈن نے ملک کی بہتری کے لئے کوئی بھی کام نہیں کیا ہے۔ مختلف آرائے ہیں کہ انہیں کون مجبور کر رہا ہے کہ وہ دوبارہ صدارتی انتخاب لڑیں۔ جب کہ امریکہ ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے کسی نے بتایا کہ سابق صدر اوبامہ نے انہیں اپنے کاندھے پر اٹھا رکھا ہے۔ پھر ہمارا خیال تھا اسرائیلی لابی ایپیک نے اُکسایا ہے کہ انہیں جی حضوری صدر چاہئے۔ لکھتے چلیں کہ داد دینی پڑتی ہے کہ اسرائیل نے امریکہ کو کچھ نہیں دیا۔ رہی سہی عزت بھی مٹی میں ملا دی۔ جب پیسوں اور ہتھیاروں کی ضرورت ہوئی۔ بلا کسی بحث کے فراہم کئے کہ امریکہ مالی طور پر کھوکھلا ہوگیا۔ اور امریکن مقروض ہوگئے کہ18ٹریلین کے مقروض ہوگئے۔90فیصد امریکن، کار، تعلیم، عیاشی اور شاپنگ ادھار لے کر کرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔
ہمیں یقین نہیں آتا کہ صدر بائیڈین کی بیوی جل بائیڈین، صدر بائیڈین کو صدر بنانے کی ضد میں ہیں دوبارہ، پہلی بار انہیں شاید مزہ نہیں آیا۔ جب کہ صدر بائیڈین کا گراف، بے حد گر چکا ہے۔ امریکی عوام کی رائے میں72فیصد نیچے ہیں۔ جل بائیڈین کے لئے میڈیا نے”CROOK) کالفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اردو ترجمہ کرکے دیکھ لیں ہماری نظر میں یہ میڈیا کا کروک پن ہے مطلب بدمعاشی ہے۔ یہ کچھ درست ہے کہ موازنہ کریں تو یہ ملے گا۔
وال اسٹریٹ۔۔۔۔۔ٹرمپ کی مقبولیت48فیصد اور صدر بائیڈین42فیصد
نیویارک ٹائمز۔۔۔۔۔ٹرمپ کی مقبولیت49فیصد اور صدربائیڈین43فیصد
سی بی ایس۔۔۔۔۔ٹرمپ کی مقبولیت50فیصد اور صدر بائیڈین48فیصد
CNN۔۔۔۔۔ ٹرمپ کی مقبولیت49فیصد اور صدر بائیڈین43فیصد
اگر آپ صدر بائیڈین کو میڈیا پر چلتے پھرتے اور بولتے دیکھیں تو وہ کوئی ایک جملہ صحیح طور پر ادا نہیں کرسکتے۔ بھول جاتے ہیں یا کسی اور سمت میں نکل جاتے ہیں۔ ابھی انتخاب میں4ماہ باقی ہیں۔ اندازہ لگالیں کیا ہوگا۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے وہ ٹرمپ کو ہرا دینگے۔ اور کمیلا حارث منہ پھاڑ پھاڑ کر قہقہے لگاتی ہیں۔ سنجیدہ یا طنزیہ یہ وہ ہی جانتی ہیں ہمیں چار سال میں پتہ نہ چل سکا کہ وہ بلامقصد کیوں ہنستی ہیں کہ ہمیں رونا آتا ہے۔ کیلیفورنیا کے ہندوستانی نژاد کانگریس مین نے اپنے ساتھیوں کے لئے یہ پیغام دیا ہے روکھنہ کہتے ہیں۔ کسی کو بھی کانگریس میں اپنے مالی فائدے کے لئے نہیں آنا چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بدعنوانی کو دھویا جائے واشنگٹن اور وال اسٹریٹ کی اسٹاک ٹریڈنگ کو شفاف بنایا جائے اور یہ ووٹرز کی آواز ہے۔ ہم کھنہ صاحب سے متفق ہیں لیکن یہ ایسا ہی ہے کہ پاکستان کے تمام بدمعاشوںکو گولی سے اُڑا دیا جائے۔ اور جب بدعنوانی اور بے ایمانی عادت میں آجائے تو خون میں سرایت کرکے فطرت کا روپ دھار لیتی ہے۔ یہاں سب سے پہلے لابیسٹ کو ختم کرنا ہوگا زیادہ تر یہ وکالت کے پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے لئے شیکسپیئر نےHENRY VI PART II میں ایک کردار ڈک قصائی کے منہ میں ڈالے تھے۔ آئیں ان سارے وکیلوں کو مار دیں۔ اب یہ طنزیہ تھا یا سنجیدہ اس پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں پاکستان کے حکمرانوں کے لئے کہ خمینی بن جائو اور ایک وقت میں تین ہزار کو اڑا دو۔ مطلب ان کی نسلوں کو بھی۔ لیکن امریکہ میں ابھی کچھ اچھے سیاستدان ہیں۔ برنی سینڈرز، ٹھوس مثال ہے لیکن ان کی مثال عمران خان کی مانند ہے۔ کوئی نہیں سنتا اور پچھلی ریس میں وہ پرائمری میں ڈیموکریٹ کی طرف سے سب سے آگے تھے۔ پھر کیا ہوا۔ خدا ہی جانے، کوئی جادوئی عمل تھا کہ بائیڈین نامزد ہوگئے۔ اور مزے کی بات صدر بھی بن گئے لیکن اب عوام برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیا ہونے جارہا ہے۔ بظاہر سب یہ ہی کہہ رہے ہیں۔ ٹرمپ ہی صدر بنے گا یہ پہلا موقعہ ہے کہ ہم کوئی پیشن گوئی نہیں کر پا رہے۔ بار بار یہہی کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ میں ہر چیز کی قیمتیں روزانہ کے حساب سے بلاوجہ بڑھ رہی ہیں۔ جو ذہن میں آئے جان لیں قیمت بڑھ چکی ہے اور نہ ہی گورنمنٹ اور نہ ہی سیاستدان کچھ بول رہے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انکے بیوی اور بچوں نے کارپوریشن کے شیئر خرید رکھے ہیں۔ کانگریس مین کھنہ کا اسی طرف اشارہ ہے۔
بہت پہلے سنا تھا۔ برطانیہ شیر کی خالہ ہے اور شیر امریکہ ہے۔ جو ہر معاملے میں ایک ہیں۔ اس ہفتہ انگلینڈ میں وزیراعظم جو کنزرویٹو پارٹی کے نمائندے تھے وزیراعظم کا عہدہ گنوا بیٹھے۔ رشی سونک کو جولیبر پارٹی کے نمائندے تھے۔ اکثر سے وزیراعظم کا عہدہ مل گیا آتے ہی انہوں نے کہا” ہمارے ملک کو بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ نئے وزیراعظم کیراسٹارمر نے یہ بھی کہا۔ برطانیہ کو ایک بار پھر رہنمائی کرنے والا ملک بنائینگے۔ اور تبدیلی کا عمل جلدی شروع ہوگا۔
ہم اس کا تجزیہ کرتے چلیں کہ صاحب اب ایسا کچھ کرنے کے لئے آپ کو اٹھارویں صدی میں جانا ہوگا۔ اس لئے کہ تیسری دنیا کے ملکوں کی رہنمائی اب چین کر رہا ہے اس کے پاس سب کچھ ہے اور وہ برطانیہ کے طریقہ سے چلا ہے کہ سب سے پہلے ٹرین کا نظام چین سے تیز رفتار ٹرینیں اور پٹریاں بنا کر دی ہیں۔ بس ملکوں پر قبضہ کرکے ان کے وسائل پر قبضہ نہیں کیا خیال رہے پاکستان کی بربادی برطانیہ نے نہیں کی۔ ہم سب نے مل کر کی ہے برطانیہ نے تو ہندوستان سے بھی زیادہ کرکے دیا تھا۔ لیکن ہم صرف پنجاب کو پاکستان سمجھ بیٹھے۔ اورنج ٹرین چلا دی۔ جو پچھلے دو سال سے خسارے میں چل رہی ہے۔ کمیشن کھا کر بھاگ لئے۔ اور اب وہی لوگ پاکستان کو بنانے آئے ہیں میرے منہ میں خاک ایسا ہونا ممکن نہیں جب تک یہ حکمران اور آرمی جنرلز ملک پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔
جو اچھی باتیں ہم نے کیں اور دیکھیں وہ مندرجہ ذیل میں پھر یاد دلاتے چلیں۔
ایوب خان کے دور میں ہر سمت میں ترقی ہوئی۔ خارجہ پالیسی کو مضبوط کیا گیاRCDبنا ترکی ایران اور پاکستان کو ملا کرPIA نے نور خان کے دور میں ایئرلائن کو دنیا کی بڑی بڑی ایئر لائنز کے برابر کیا یہ ہی لوگ، مشرقی وسطیٰ کیEMIRATEکو برینڈ کرکے خود ملک چھوڑ گئے۔ نئی نئی سمتوں میں پروازوں کا آغاز ہوا۔ کراچی ٹرمنل پر دوسرے ملکوںکے جہاز بھی سنبھالے جاتے تھے۔ اسٹیل مل بنایا روس نے اور کراچی کی ایک جماعت نے اسے اپنے باپ کا جان کر لاتعداد بھرتیاں کروائیں۔ کراچی حیدر آباد کا نیا ہائی وے بنا اور فاصلہ صرف ڈیڑھ گھنٹے کا ہوگیا۔
اسکولوں کو فروغ ملا جو گورنمنٹ کے تھے اور قابل طلباء ان ہی پبلک تعلیم گاہوں سے نکل کر چھا گئیں۔ اور پھر کیا ہوا یہ ہی لکھنا پڑتا ہے کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ جنرلز کے بعد جنرلز آتے گئے۔ اور ملک کے ٹکڑے ہوگئے جو ہونا ہی تھے۔ بنگلہ دیش بنا اور اب اس کی ترقی کی داستان پڑھ لیں اور یوٹیوب پر دیکھ لیں۔
یہ سب باتیں لکھنے کی تو ہیں لیکن اس سے بدلے گا کچھ نہیں اگر کسی جنرل کی نظر پڑی تو فوری میڈیا پر بیان دے گا۔ باہر رہنے والے وہ پاکستانی راکے ساتھ مل کر سازشوں میں شریک ہیں۔ ہمارا جواب ہے اب تم پر بھی انڈیا ہاتھ نہیں رکھے گا۔ اسے جو کرنا تھا وہ کر چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے اور یوٹیوب کے ذریعے وہ ہماری نوجوان نسل کو بگاڑ چکا ہے۔ اور یہ بگاڑ بڑھتا رہے گا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جسم کو کینسر اور معاشرے میں بدعنوانی کا کیڑا پڑ جائے تو معاشرہ سدھر جائے گا۔ ہم وہ قوم ہیں جس نے اسلام جیسے مذہب کو گرا دیا ہے۔ اللہ کے فرمان اور رسول کے قول پر نہیں چلتے۔
٭٭٭٭٭