یہ مرحلہ طے ہوا، آگے کیا؟

0
151
جاوید رانا

خدشات، دعوے، الزامات، ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے گھیرے میں محصور صوبہ پنجاب کے ضمنی انتخابات آخر کار تکمیل کو پہنچے، جو نتائج سامنے آئے قارئین ان سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں۔ ہمیں جہاں کپتان کی پُرعزم جدوجہد اور مستحکم بیانیہ کے ثمرات پر (جس کا عندیہ ہم اپنے گزشتہ کالموں میں کرتے رہے ہیں) خوشی ہے وہیں ن لیگ کی بدترین شکست پر دُکھ بھی ہے۔ 13 جماعتوں کے اتحاد کے مقابل عمران خان کی 15 نشستوں پر بے مثال کامیابی حتیٰ کہ شریفوں کے گڑھ لاہور میں چار میں سے 3 نشستوں پر جیت اس حقیقت کی مظہر ہے کہ پنجاب کی سیاست میں انقلابی تغیر واقع ہوا ہے۔ نتائج اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں نواز لیگ ہی نہیں پی پی پی کا انتخابی وجود بھی شدید متاثر ہوا ہے جہاں حکومتی اتحاد ایک نشست بھی حاصل نہ کر سکا۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر مبصرین و تجزیہ کار اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں تاہم ہماری نظر میں ان نتائج نے پنجاب کی سیاسی صورتحال اور روایات کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان حالات میں جب صوبے میں نواز لیگ کی حکومت تھی، پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی، اس کے باوجود ن لیگ صوبے میں اپنی حکومت اور وزارت اعلیٰ کے حصول کیلئے کامیاب نہ ہو سکی۔ ہماری نظر میں عمران خان کے سازش اور حقیقی آزادی کے مضبوط بیانیئے کی عوام میں غیر معمولی مقبولیت و پذیرائی کی اہم ترین وجہ کیساتھ بہت سے دیگر عناصر بھی حکومتی اتحاد کی شکست کا باعث ہوئے۔ پنجاب کی سیاست پر نواز لیگ کا چار عشروں پر مقتدر رہنے کا زعم اور عوام کو اپنے ڈھب پر استعمال کرنے کی سوچ، گزشتہ تین ماہ میں بے تحاشہ مہنگائی جیسے معاملات کیساتھ سب سے بڑا عنصر ن لیگ کے اپنے امیدواروں کو نظر انداز کر کے پی ٹی آئی کے منحرفین کو امیدوار بنانا تھا۔ ن لیگ کے اس اقدام سے نہ صرف اس کے اپنے اندر دراڑیں پڑیں بلکہ عوام نے بھی جن کے دلوں میں کپتان کی حکومت گرائے جانے سے خصوصاً لوٹوں سے نفرت بھری ہوئی تھی اور خان کی محبت سے سرشار تھے منحرفین کو قطعی مسترد کر دیا۔
نواز لیگ میں شکست و ریخت کے مظاہر بھی سامنے آرہے ہیں، شرقپوری کا استعفیٰ اس کی پہلی مثال ہے اور شنید ہے کہ 9 صوبائی اراکین اور 8 قومی اسمبلی اراکین استعفوں کیلئے پرتول رہے ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ سیاسی ایرینا میں نواز لیگ کہاں کھڑی ہے۔ صوبائی حکومت کا فیصلہ تو ہو ہی چکا ہے، وفاق میں بھی اتحادی حکومت لرزہ بر اندام نظر آتی ہے۔ یہی نہیں قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے نام نہاد قائد حزب اختلاف راجہ ریاض و دیگر کو بھی اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے گویا کپتان کی زبردست کامیابی کے بعد اب یہ لوگ نہ گھر کے رہے ہیں نہ گھاٹ کے۔
پنجاب میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی آج پاکستان کی سب سے بڑی اور عوام کی مضبوط و مقبول ترین جماعت ہے۔ پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے کے ساتھ سوائے صوبہ سندھ کے تمام صوبوں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں اس کی کلی یا مشترکہ حکومتیں ہیں جبکہ سندھ میں پی ٹی آئی صوبے کی دوسری پارلیمانی جماعت کی صورت میں موجود ہے۔ کراچی میں اس جماعت کے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال میں دیکھا جائے تو نواز لیگ محض اسلام آباد میں اقتدار تک محدود رہ گئی ہے۔ بطور وزیراعظم چھوٹے میاں صاحب میر تقی میر کے شعر ”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں” کی تصویر نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں کار ریاست و مملکت میں وفاق و صوبوں کے درمیان تعلقات پر بہت سوالات اُٹھتے نظر آرہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس تمام تر صورتحال میں بہتر راستہ جلد از جلد صاف و شفاف عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ عمران خان اپنی تمام تر کمپیئن کے دوران فوری و شفاف انتخابات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاہم سوموار کو قوم سے خطاب میں اس حوالے سے کوئی عندیہ دیا نہ کوئی اظہار کیا۔ البتہ اسد عمر اور فواد چودھری ٹی وی شوز میں جلد انتخابات کا اشارہ دے رہے ہیں جبکہ شیخ رشید مسلسل اکتوبر نومبر میں عام انتخابات کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔
جلد عام انتخابات کا اشارہ تو بعض حکومتی و ریاستی اداروں سے بھی مل رہا ہے لیکن ہمارا قیاس یہ ہے کہ خصوصاً ن لیگ جلد عام انتخابات کیلئے اس وقت تیار نہیں ہوگی، وجہ یہ کہ موجودہ انتخابی نتائج و عوامی رجحان قطعی اس کے مفاد میں نہیں کہ ن لیگ کی سیاست کا محور پنجاب ہی رہا ہے اور گزشتہ کئی عشروں سے وہ پنجاب میں کامیاب ہوتی رہی ہے لیکن حالیہ ضمنی انتخاب نے اسے شدید ترین دھچکا پہنچایا ہے۔ اس نقصان اور ناکامی کے بعد اسے اپنی سیاسی حیثیت بحال کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوگا، عمران کے بلے نے لیگ کے شیر کو مار مار کر بھوسے کا شیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ خیر یہ تو جملہ استہزاء تھا، حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اس وقت جس طرح عوام کی چوائس بن کر سامنے آیا ہے، کوئی بھی سیاسی یا فیصلہ ساز قوت اس کے آگے ٹھہرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے بھی ہے کہ وطن عزیز اپریل کے بعد سے جن مشکلات سے دوچار ہے ان سے نکلنے کیلئے بھی فوری عوامی انتخابات کا انعقاد او رمضبوط و مربوط حکومت کا قیام بہت ضروری ہے۔
22 جولائی کو چودھری پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ بننے اور پی ٹی آئی و ق لیگ کی مشترکہ حکومت کے اعلان کے بعد یہ واضح ہو سکے گا کہ کپتان ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت کا تسلسل جاری رکھنا اور عام انتخابات معینہ وقت پر کرانا چاہے گا یا فوری انتخابات کا راستہ اپنائے گا۔ فوری انتخابات یا اسمبلی کی تحلیل کے بہت سے آئینی آپشن ہیں، صدر مملکت وزیراعظم کی سفارش پر اسمبلیاں تحلیل کر سکتا ہے، وزیراعظم سے اعتماد کے ووٹ کیلئے کہا جا سکتا ہے یا موجودہ سورتحال میں اگر اتحادی حکومتی صفوں سے علیحدہ ہو جائیں تو درآمدی حکومت کا ٹھہرنا ممکن نہیں رہتا۔ بہر حال ہمارے خیال میں اب نئے انتخابات ہی وطن عزیز اور عوام کی بہتری کا حل ہیں۔ غالب کے بقول!
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here