قارئین وطن! ہائے پیارے پاکستان کی قسمت جس کو دس لاکھ انسانوں کے خون کی قربانی دے کر حاصل کیا انگریز، ہندو اور یونینسٹوں کے جبڑوں سے آج جس حال سے وطن عزیز گزر رہا ہے بہت بہت سال پہلے جرنل ایوب خان کے بھائی خان بہادر نے نیچے درج شعر پڑھ کر مستقبل کا نقشہ کھینچ دیا تھا!
برباد گلستاں کرنے کو صرف ایک ہی آلو کافی تھا
ہر شاخ پہ آلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا!
اور ہم سالوں سے تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن ہم کو پستی کی طرف لے جاتا ہے ۔
قارئین وطن! کل کالم لکھنے بیٹھا تو سیروں موضوع ذہن میں دوڑ رہے تھے عدلیہ اسٹیبلشمنٹ آئی ایم ایف مہنگاء غربت وغیرہ وغیرہ کہ کسی سجن نے یہ تحریر بھیجھی !
جس درخت پر سانپ رہنا شروع کردیں وہاں پر پرندے اپنا آشیانہ نہیں بناتے
میرے چمن پاکستان کا کونسا درخت (ادارہ) ہے جس پر سانپ نہیں رہ رہا
صدر مملکت ، وزیر اعظم ، نائیب وزیر اعظم، پارلیمنٹ کا اسپیکر ، سینٹ کا چیئرمین ، جرنل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم ، قاضی فائیز عیسی ، عامر فاروق اللہ اللہ یہ سب کالے ناگ ہی تو ہیں جو چمن کے ہر درخت پر ڈیرہ بسائے ہوئے ہیں ، یہ ناگ نہ صرف ڈستے ہیں خون بھی چوستے ہیں اور کروڑ عوام کا یہ حال کہ اِن کے ڈسنے کی اتنی عادت پڑ گئی ہے ۔واہ پرندوں (عوام) کا حوصلہ دیکھیں کے سال سے ان کالے ناگوں سے ڈسوائے جاتے ہیں پھر بھی آہ نہیں کرتے لیکن اب وقت آگیا ہے کے پرندے اپنی چونچوں سے چمن کے درختوں پر ڈیرہ ڈالے سانپوں کو کچل دیں تاکہ ہم بھی اپنے چمن کو شاد و آباد کریں۔
قارئین وطن! انصاف کے گھر میں بیٹھے ہوئے جسٹس بابر اور کیانی جیسے بہادر سربکف سانپوں کو کچلنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے دیکھا دیکھی اب عوام بھی اٹھ کھڑے ہوں کہ اب سانپوں کا ظلم سہتے سہتے بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے اب اور نہیں اب پاکستان اپنے چمن کو سر سبز و شاداب بنائیں۔
قارئین وطن! ہمارے برادر ملک ایران کے صدر ابراہیم رئیسی بھی شہید اِناللہ وانا الیہ راجعون اس شعر کی روشنی میں ان کے حادثہ کو سمجھیں!
حشر ہو جائے گا برپا راز جس دن کھل گیا
ایک سمجھوتہ ہوا تھا قاتلوں کے درمیاں
٭٭٭