قانون کے نفاذ کرنے والے اداروں کا یہ موقف ہے کہ ایشیائی باشندوں کا شر پسندوں اور مجرم پیشہ افراد کے ہاتھوں ہدف بن جانا اُن کی چند کمزوریوں کا شاخسانہ ہوتا ہے، اُن میں اوّل ترین تو انگریزی زبان میں افہام و تفہیم کا فقدان ہے، ایشیائی باشندے تو سب سے پہلے انگریزی زبان سے نابلد ہوتے ہیں اور اگر اُنہیں انگریزی تھوڑی بہت آتی بھی ہے تو اُس کی جب وہ ادائیگی چائینز لہجے میں کرتے ہیں تو پولیس افسران کے پلّے وا ….وا …وا کے سوا اور کچھ نہیں پڑتا۔ ایک پولیس افسر نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب اس نے ایک ایشیائی باشندے سے استفسار کیا کہ اُس پر حملہ کرنے والے شخص کا رنگ کیسا تھا تو وہ ایک شخص کے سیاہ کتے کی جانب اشارہ کرکے چپ ہوگیا۔ اُس کی یہ حرکت پولیس افسر کی سمجھ سے بالاتر تھی، جب افسر نے دریافت کیا کہ حملہ کرنے والے شخص کی پتلون کیسی تھی تو ایشیائی باشندے نے شی وی.شو کہہ کر جواب دیا۔ پولیس افسر نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُس کے ساتھ پولیس سٹیشن چلے تا کہ کوئی چائینز اُس کے بیان کو قلمبند کر سکے لیکن ایشیائی باشندہ اِس پر قطعی راضی نہیں ہوا، اُس نے یہ سمجھا کہ پولیس افسر اُسے گرفتار کر رہا ہے اور پھر لڑنے جھگڑنے کی نوبت آگئی، اِسی دوران ایک دوسرا چائینز باشندہ جسے چائینز آتی تھی وہاں پہنچ گیا، انگریزی جاننے والے باشندے نے دوسرے ان پڑھ سے گفتگو شروع کردی اور چند لمحہ بعد اُس نے پولیس افسر کو بتایا کہ دراصل مذکورہ شخص کسی تشدد کا شکار نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اپنے گھر کا راستہ سب وے میں بھول گیا ہے، وہ برانکس جانے کے بجائے سب وے سے بروکلین چلا آیا ہے، پولیس افسر انگریزی جاننے والے چائینز سے کہا کہ ہر چائینز جب اُن سے رجوع کرتا ہے تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ سائل کسی جرم کا شکار ہوا ہے، کسی نے اُس کی پٹائی کی ہے اور چائینز نے شورڈالا اورماشا اللہ کہہ کر اپنی جان بچائی ہے۔قانون نافذ کرنے والے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ چائینز کے خلاف تشدد کی لہر کوئی نئی بات نہیں بلکہ چند سال قبل یعنی 2019 ء سے انتہائی منظم طریقے سے اِس کی ابتدا ہو گئی تھی،اِس سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ گذشتہ ہفتے ایف بی آئی کے اہلکاروں نے 8 ایسے چوروں کو گرفتار کیا ہے جو منظم طریقے سے ایشیائی افراد کے گھروں میں نقب زنی کی واردات کیا کرتے تھے، اُن کی واردات کا ہدف نیویارک،نیوجرسی، پنسلوانیا اور ڈیلاور اسٹیٹس ہوا کرتا تھاجیسا کہ پراسیکیوٹر نے نیویارک کی فیڈرل عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان چائینز ریسٹورنٹ کے مالکان کے گھر کا پتہ اُن کی گاڑیوں میں ٹریکنگ آلات کو چسپاں کرکے معلوم کر لیا کرتے تھے۔ متعدد مرتبہ وہ ایسے گھروں کو بھی نشانہ بنایا کرتے تھے جو چائینز کی انتہائی گنجان آبادی میں ہوا کرتا تھا۔ کم ازکم اُنہوں نے 50 سے زائد مکانوں کو اپنی واردات کا نشانہ بنا کر کروڑوں ایشیائی اور امریکی کرنسیوں، جیولری اور اسلحہ کو لوٹا تھا، اُن کی چوری کی کاروائی 2016 ء سے 2019 ء کے دوران عمل میں آئی تھی،سال 2019 ء میں نیوجرسی کے ایٹن ٹاؤن کے ایک چائینز بزنس مین نے یہ رپورٹ درج کرائی تھی کہ چوروں نے اُس کے گھر سے 5 لاکھ ڈالر کیش کے علاوہ زیورات اور ایک قیمتی پرس چرا لیا ہے۔ اُس واردات سے ایک ماہ قبل کوئینز ، نیویارک سٹی کے دوگھروں سے چوروں نے ایک مکان سے ایک لاکھ اور دوسرے سے 78 ہزار ڈالر کیش اور قیمتی مالیت کے سامان کا صفایا کردیا تھا اور بعد ازاں اِس امر کا انکشاف ہوا تھا کہ اُن وارداتوں میں مذکورہ چوروں کا گروہ ملوث تھا،بقول پراسیکیوٹر کے چور اِس بات کی تصدیق کیا کرتے تھے کہ مذکورہ گھر کا مالک ایشیائی ہے ، وہ گھر کی ریکی کیا کرتے تھے، اور جب اُنہیں یقین ہو جاتا تھا کہ گھر کے اندر کوئی شخص موجود نہیں تو وہ بعض اوقات گھر کی دوسری منزل کی کھڑکیوں سے جوعموما” کھلی ہوتی تھیں ،سیڑھیوں سے داخل ہو جاتے تھے۔تالوں کو کھولنا بھی اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا تھا،تین چوروں کو عین اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اُنکی واردات کی کاروائی جاری تھی۔ دو گھر ایسے تھے جو خالی نہیں تھے بلکہ گھر میں کوئی فرد موجود تھا۔ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ جارج کروچ جونیئر جنہیں اِس کیس کی تفتیش ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں کہا ہے کہ چوری کی وارداتیں حسب معمول بیباکی اور موقع پرستی پر مبنی ہوتی تھیں۔گرفتاریاں جو اِس وقت عمل میں لائی گئی ہیں، اِس حقیقت کی مظہر ہیں کہ ایشیائی امریکیوں کے خلاف تشدد کی وارداتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے ، اُنکے مکانوں اور بزنس پر حملہ سبھوں کیلئے تشویشناک ہے۔ مسٹر کروچ نے کہا کہ یہ ایک صحیح وقت میں ایک درست کاروائی ہے۔لواِن وانگ جو یونیورسٹی آف پٹسبرگ میں لا کی پروفیسر ہیںچوروں کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی کی قومیت ، نسل یا رنگ کو پیش نظر رکھتے ہوئے واردات کا کرنا ہیٹ کرائمز کے زمرے میں آتا ہے تاہم پراسیکیوٹر نے کسی بھی چور کے خلاف ہیٹ کرائمز کے الزام کو شامل جرم نہیں کیا ہے،لو اِن وانگ نے مزید کہا کہ چوروں کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے افراد کے گھروں میں وافر مقدار میں کیش منی اور جیو لری ہوتے ہیںاور جب اُن کے گھروں میں چوری ہوتی ہے تو وہ انگریزی زبان کی ناواقفیت یا رکاوٹ کی وجہ سے پولیس کو اطلاع کرنے سے گریز کرتے ہیں،پاکستانی اور بھارتی باشندوں کے خلاف بھی اِن دنوں نفرت انگیز حملوں میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے اور جسے اکا دکا واقعہ قرار دینا حماقت کے مترادف ہے۔